بے حس انتظامیہ کا بے شرم رویہ

Rajporaحالیہ تباہ کن سیلاب نے ریاستی انتظامیہ کی قلعی کھول دی ۔جنوبی کشمیر میں سیلاب کی تباہ کاری کو دیکھ کر انتظامیہ اس طرح غائب ہوگئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ سیلاب نے نہ صرف وادی کشمیر میں بلکہ پیرپنچال خطے میں وسیع پیمانے پر تباہی مچادی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وادی میں سیلاب سے پچاس لاکھ لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی صحیح تعداد کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔کئی علاقوں میں عمارتوں کی ایک منزل اور کہیں دو منزلیں زیر آب آگئیں۔ بجلی ،پانی اور مواصلاتی نظام بیشتر علاقوں میں ہنوز منقطع ہے۔اس پر طرہ یہ کہ اس پریشان کن صورتحال میں انتظامیہ نے وادی کو تقریباً لاوارث چھوڑ دیا ۔ جن کے ہاتھوں میں اختیار اور کاندھوں پر ذمہ داری تھی وہ شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ کچھ بھی کرنا نہیں پڑے گا اور سب کچھ اپنے آپ درست ہوتا چلا جائے گا۔تقریباً سبھی اسمبلی ممبران اپنے اہل خانہ سمیت جموں بھاگ گئے اور وادی کے عوام کو اللہ کے رحم وکرم پرچھوڑ دیا۔جانکار حلقوں کے مطابق اگر مقامی آبادی سینکڑوں کی تعداد میں ریلیف کیمپ قائم نہیں کرلیتی تو جو لوگ سیلاب سے بچ کر نکلے وہ بھوک ،پیاس اور دوائیاں نہ ملنے کی وجہ سے ضرور مرجاتے۔ سر والٹر لارنس نے اپنی کتاب The Valley Of Kashmirمیں لکھا ہے کہ1893ء میں سرینگر میں سیلاب آیا تو مہاراجہ پرتاپ سنگھ کی حکومت بے خبری کی نیند سوئی رہی۔اس سانحہ کے ٹھیک 121برس بعد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی حکومت میں بھی صورت حال کم وبیش ویسی ہی ہے اور اس سانحہ سے کوئی سبق نہیں لیا گیا۔موجودہ حکومت کا رویہ تاریخ میں ایسی مثال کے طور پر درج ہوگا کہ کس طرح ایک بے حس انتظامیہ مشکلات میں کئی گنا اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ بارش شروع ہونے سے صرف دو روز قبل وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی حکومت ریاست کو خشک سالی سے متاثر قرار دینے کیلئے ایک نوٹ تیار کررہی تھی اور دو ہفتے بعدیہی وزراء وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کرکے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے قومی راحت فنڈ جاری کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2010میں جب ریاستی حکومت نے سیلاب سے بچانے کیلئے 2200کروڑ روپئے کا ایک منصوبہ مرکزی حکومت کو پیش کیا تو مرکزسے واپس یہ حکم ملا کہ آپ یہ ثابت کردیں کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار کیوسک پانی سے سرینگر میں سیلاب آسکتا ہے ۔قدرت کے ہاتھوں نے اب اس بات کو ثابت کردیا ہے۔ اُترا کھنڈ کی طرح کشمیر میں سیلاب اچانک نہیں آیا ۔بارش کا سلسلہ یکم ستمبر کو شروع ہوا اور چند روز بعد جنوبی کشمیر میں بارش کا پانی دریا کے پشتوں کو توڑ کر وسیع علاقوں میں پھیلنے لگا ۔جوں جوں جہلم میں سطح آب بڑھتی چلی گئی ،اس پانی نے جنوبی کشمیر میں قیامت صغریٰ بپا کردی۔سرینگر میں یہ پانی سات ستمبر کو داخل ہوا۔اس دوران لوگوں کو وہاں سے نکالنے یا محفوظ مقامات پر دریا کے پشتے توڑنے کیلئے کافی وقت تھا۔جس دن صورت حال پر توجہ دینے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی،اس دن انتظامیہ وزیراعظم نریندر مودی کا استقبال کرنے اور ان کی خاطرداری میں مصروف رہی۔ریاستی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا’’جب سرکار کو تمام محکمہ جات خصوصاً فلڈ کنٹرول،پی ایچ ای ،ڈزاسٹر منیجمنٹ اورپولیس کی مشترکہ میٹنگ کا اہتمام کرنا چاہئے تھا،انہوں نے کابینہ اجلاس منعقد کرکے تبدیلیوں اور تقرریوں کے احکامات جاری کئے جو انتہائی افسوسناک ہے‘‘۔ سیلابی صورتحال کو سنگین دیکھ کر وزیراعلیٰ نے ڈویژنل کمشنر وں کو ہدایت دی کہ سینئر افسران کو صورتحال پر نگاہ رکھنے کے لئے تعینات کریں اور لوگوں کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔انہوں نے افسران کو یہ ہدایت بھی دی کہ کنٹرول روم رات دِن چالو رکھے جائیں تاکہ عوام اور متعلقہ افسران کے درمیان رابطہ قائم رہ سکے۔معلوم نہیں کہ وزیراعلیٰ کو سیلابی صورتحال کی صحیح جانکاری فراہم کی گئی تھی یا نہیں ورنہ کنٹرول روم کسی ایسی اونچی جگہ پر قائم کئے جاتے جہاں سیلاب کا خطرہ نہیں رہتا تاہم ایک کنٹرول روم ڈپٹی کمشنر آفس اور دوسراپی سی آر میں قائم کیا گیا۔حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں کنٹرول روم رات کے اندھیرے میں ہی صورہ منتقل کرنے پڑے ۔واضح رہے کہ ریاست کے چیف سیکرٹری محمد اقبال کھانڈے نے4ستمبر کو ڈپٹی کمشنر وں کے ساتھ ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک ویڈیو کانفرنس کی اوراُنہیں ہدایت دی کہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار رہیں۔اس موقع پر تمام ضلع کمشنروں نے چیف سیکریٹری کو یقین دہانی کرائی کہ وہ سیلاب سے نمٹنے کیلئے بالکل تیار ہیں ۔حقیقت حال تاہم یہ ہے کہ سیلاب سے نمٹنے کے بجائے انہوں نے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھ لی ۔حد یہ ہے کہ سرینگر کے ہوائی اڈے پر وزیراعلیٰ نے جب میٹنگ بلائی وہاں دو چار افسر ہی حاضرہوئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر حیدرپورہ،صنعت نگر ،غوری پورہ،باغات مسجد،گوردوارہ باغات اور دیگر مقامات پرمقامی لوگوں کی طرف سے راحت کیمپ قائم نہیں کئے جاتے تو نہ معلوم سیلاب متاثرین کا کیا ہوتا۔ ان راحت کیمپوں میں مقیم سیلاب زدگان اس کا واضح ثبوت ہے جنہیں انتظامیہ نے نہیں بلکہ اپنے کشمیری بھائیوں نے اپنی جانوں پر کھیل کربچایا ۔اتنا ہی نہیں بلکہ راحت کیمپوں میں ان کی رہائش ،دوائیوں اور کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا۔صنعت نگر راحت کیمپ کے ایک رضاکار محمد مقبول کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نہ صرف لوگوں کو بچانے میں ناکام ہوچکی ہے بلکہ راحت کیمپوں تک کھانے پینے کی اشیاء یا دیگر ساز وسامان پہنچانے میں بھی ناکام ہوگئی۔محمد مقبول نے کہا’’ہم نے کیمپ میں جو بھی انتظامات کئے ہیں اس کا سہرایہاں کی عوام کے سر جاتا ہے ‘‘۔مقبول کے مطابق ’لوگوں نے چاول،سبزیاں ،تیل،دوائیاں ، کمبل اور گرم ملبوسات رضاکارانہ طور فراہم کئے حتیٰ کہ ہمارے ڈاکٹر صاحبان نے بھی علاج و معالجہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑدی‘۔ سینکڑوں سیلاب زدگان کا تقریباً ایک ہی سوال ہے کہ وقت ملنے کے باوجود ریاستی انتظامیہ عوام کو بچانے میں ناکام کیوں رہی۔حیدرپورہ کے راحت کیمپ میں8ستمبر سے مقیم جواہرنگر کے ایک شہری ارشاد احمد نے بتایا کہ جن علاقوں میں سیلاب کا خطرہ تھا وہاں انتظامیہ نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے تھے۔ارشادنے بتایا’’ افسوس کا مقام یہ ہے کہ انتظامیہ نے ریڈ الرٹ جاری نہیں کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ فقط ایک گھنٹہ قبل اعلان کیا گیا کہ سیلاب کا خطرہ ہے اور محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوجاؤ‘‘۔ارشاد کے مطابق یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب پانی گھروں میں داخل ہوچکا تھااور اعلان کیلئے بھی فقط ریڈیو کا سہارا لیا گیا جبکہ انتظامیہ کے پاس ذرائع کی کوئی کمی نہیں تھی ،پولیس کی گاڑیاں بھی استعمال کی جاسکتی تھیں۔ ارشاد نے بتایا کہ ’ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ سیلاب اس قدر ہماری عمر بھر کی جمع پونجھی تباہ کرکے رکھ دے گا‘۔ارشاد کی ان باتوں سے کیمپ میں مقیم کئی لوگوں نے اتفاق کیا جو بمنہ،قمرواری،ٹینگہ پورہ،جواہر نگر،کرسو راجباغ،پادشاہی باغ اور دیگر سیلاب زدہ علاقوں میں متاثر ہوچکے ہیں۔ارشاد نے وزیراعلیٰ پرالزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے جن لوگوں کی موت واقع ہوگئی اس کیلئے عمر عبداللہ سرکار ذمہ دار ہے۔راجباغ بنڈ پر امدادی کارروائیوں میں مصروف ایک نوجوان عارف احمد وانی نے کہا’’ بارش کا سلسلہ شروع ہونے کے ساتھ ہی فلڈ کنٹرول محکمہ یہ راگ الاپنے لگا کہ ان کے پاس لاکھوں خالی سیمنٹ بیگ ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ وہ بیگ پھر کہاں گئے‘‘۔عارف نے مزید کہا ’’باندھ رسنے سے پہلے ہی اگر بیگ پہنچائے جاتے تو شائد تھوڑا بہت خطرہ ٹل سکتا تھا‘‘۔عارف وانی جس کا اپنا گھرسولنہ میں زیر آب آچکا تھا،کا کہنا ہے’’ مہذب دنیا میں حکومتیں اپنی پالیسیوں اور کارکردگی سے چلتی ہیں لیکن ہمارے ہاں حکومتوں کا سارا زور کارکردگی کے بجائے بھرم بازی پر ہوتا ہے۔خوش کن وعدے اورلمبے چوڑے بیانات حکومتی عرصہ گزارنے کے لئے کافی ہوتی ہیں‘‘ ۔

تبصرہ کریں