کشمیر:4افراد جاں بحق

11جون سے ہلاکتوں کی تعداد56
وادی میں ماہ رمضان کی پہلی جمعہ کو شمالی کشمیر کے بومئی سوپور، ترہگام کپوارہ اورپٹنمیں احتجاجی مظاہروں کے دوران سی آر پی ایف کی اندھادھند فائرنگ سے65سالہ مئوذن سمیت4نوجوان جاں بحق اور100سے زائد زخمی ہوگئے ۔زخمیوںمیں نصف درجن خواتین بھی شامل ہیں۔سرینگر کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج کئی زخمیوں کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔ان چار ہلاکتوں کے بعد11جون سے فورسز کے ہاتھوںجاں بحق ہونے والوں کی تعداد 56پہنچ گئی اور گذشتہ 13روزکے دوران جاں بحق ہونے والوں کی تعداد37پہنچ گئی۔
شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد سے ہزاروں لوگوں نے قصبہ کے مختلف علاقوں سے جلوس نکالا جو مین چوک تک پہنچ کر پر امن طور اختتام پذیر ہوا۔جمعہ نماز کے بعد ہی قصبہ کے مضافات میں واقع بومئی علاقہ کے درجنوں دیہات سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوںکا ایک جلوس برآمد ہوا۔جلوس میں شامل لوگوں نے سی آر پی ایف92بٹالین کے کیمپ کے قریب پہنچتے ہی زور دار نعرے بازی کی جس پر فورسز اہلکار مشتعل ہوئے اور انہوں نے مظاہرین پر اندھا دھند گولیاں چلائیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے فورسز کیمپ پر شدید پتھراو کرکے اس پر دھاوا بولنے کی کوشش کی جس کے جواب میں فورسز نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تاہم مقامی لوگوں کے مطابق فورسز نے بلا اشتعال گولی چلائی۔عینی شاہدین کے مطابق ‘فورسز کی اندھا دھند فائرنگ سے دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں افراد خون میں لت پت  سڑک پرگر پڑے۔ زخمیوں میں 16سالہ محمد عارف میر اور 18سالہ سمیر احمد لون ساکنان لوگری پورہ بومئی سوپور اسپتال پہنچاتے ہی دم توڑ بیٹھے۔20سالہ دوشیزہ سمیت دیگر زخمیوںکو صدراسپتال اور صورہ میڈیکل انسٹچوٹ منتقل کیا گیا۔ مذکورہ دوشیزہ کے پیٹ میں گولی لگی ہے جبکہ سہیل احمدنامی نوجوان کے سر میںگولی لگی ہے۔اسپتال ذرائع کے مطابق دونوں کی حالت انتہائی تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ اس واقعہ میں قریب40افراد زخمی ہوگئے جن میں سے بیشتر کو گولیاں لگی ہیں ۔بومئی واقعہ کی خبر سوپور قصبہ میں پھیلتے ہی دیگر علاقوں سے لوگ سڑکوں پر آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔فورسز کی جوابی کارروائی میں عبید قاضی ساکن ہاتھی شاہ نامی نوجوان کندھے میں ربڑ کی گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگیاجبکہ کئی نوجوانوں کو چوٹیں آئیں۔اسی اثناء میں مشتعل مظاہرین نے ڈاک بنگلہ سوپور پر دھاوا بول کر پولیس اور فورسز پر زبردست سنگباری کی اور ڈاک بنگلہ کا گیٹ اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی لیکن ایس او جی اور سی آر پی ایف کے اہلکاروں نے آنسو گیس کے گولوں کی بارش کے ساتھ ساتھ ہوا میں زبردست فائرنگ کرکے مظاہرین کو تتر بتر کردیا۔اس واقعے میں قریب20افراد زخمی ہوگئے۔بارہمولہ کی پٹن تحصیل میں علی الصبح نماز فجر کے موقعہ پر فورسز نے بلا اشتعال فائرنگ کر کے مقامی مسجد کے 65سالہ موذن کو جاں بحق اور درجن بھر افراد کو زخمی کر دیا ۔مقامی لوگوں کے مطابق فورسز کے درجنوں اہلکار اچانک کھانڈے محلہ پٹن میں داخل ہوئے اور مسجد سے نماز کی ادائیگی کے بعد گھروں کی طرف لوٹ رہے نمازیوں کو بلا وجہ تشدد کا نشانہ بنایا ۔بتایا جاتا ہے کہ فورسز کو یہ اطلاع ملی تھی کہ پٹن کی مضافاتی بستی پلہالن سے مظاہرین کی ایک جمعیت کھانڈے محلہ تک پہنچ گئی ہے ۔چنانچہ جب نمازیوں کی شدید مار پیٹ کی گئی تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد گھروں سے باہر آئی اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بازی شروع کی۔ فورسز اہلکار مشتعل ہوئے اور انہوں نے نمازیوں کو نشانہ بناتے ہوئے راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں مسجد سے باہر آ رہے 65سالہ موذن علی محمد کھانڈے کی چھاتی اور گلے میں گولیاں لگیں جبکہ 45سالہ حسینہ بیگم اور نذیر احمدٹانگوں میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔علی محمد کو فوری طور پر پہلے صدر اسپتال اور بعد میں صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ منتقل کیا گیا جہاں وہ کچھ دیر تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ بیٹھا ۔اس دوران علی محمدکی موت کی خبر پھیلتے ہی پٹن کے ملحقہ دیہات سے ہزاروں لوگ جلوس کی صورت میں پٹن کی طرف پیش قدمی کرنے لگے۔عینی شاہدین کے مطابق پولیس ،ایس او جی اور سی آر پی ایف کی بھاری جمعیت نے پلہالن سے آنے والے جلوس کو بابہ ٹینگ کے نزدیک روک کر مظاہرین کو واپس جانے کیلئے کہا لیکن مظاہرین آگے جانے پر بضد رہے ۔ فورسز نے مظاہرین پر ڈنڈے برسائے ،اشک آور گیس کے گولے داغے اور دوبارہ فائرنگ کی ۔اس واقعہ میں22 افراد زخمی ہو گئے جن میں سے محمد الطاف گنائی ساکن پلہالن کو چھاتی میں گولی لگنے کے بعد صورہ اسپتال منتقل کیا گیا ۔اس دوران پولیس نے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا جس کیلئے فورسز کی مزید کمک طلب کی گئی ۔شمالی کشمیر کے سرحدی ضلع کپوارہ کے مضافات میں علی الصبح پولیس گاڑیوں کے ذریعے کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا گیا اور لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کیلئے کہا گیا ۔ سحری کھانے کے بعد جب لوگوں نے جامع مسجد ترہگام کی طرف جانے کی کوشش کی تو انہیںروک دیا گیا جس پر آس پاس کے علاقوں کے سینکڑوں لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ۔واضح رہے کہ ترہگام مرحوم محمد مقبول بٹ کی آبائی بستی ہے۔  جامع مسجد کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کے دوران وہاں موجود سی آر پی ایف کی بھاری جمعیت نے مظاہرین کو روکا جس پر نوجوان مشتعل ہوئے اور انہوں نے فورسز پر پتھرائو شروع کیا ۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ فورسز اہلکاروں نے جواب میں ٹیر گیس کے گولے داغنے کے بعد مظاہرین پر براہ راست گولی چلائی جس کے نتیجے میں اپنے گھر کے نزدیک سڑک پر کھڑے 17سالہ مدثر احمد زرگر ساکن میر پورہ ترہگام کی گردن میں گولی پیوست ہو گئی اور وہ موقعہ پر ہی جاں بحق ہوگیا ۔اس واقعہ میں مسماة جنتی ساکن ترہگام گولی لگنے سے زخمی ہو گئی اور اسے فوری طور پر صدر اسپتال سرینگر اور بعد میں برزلہ اسپتال منتقل کیا گیا ۔ مدثر کی لاش کو جامعہ مسجد پہنچانے کے دوران فورسز اہلکاروں نے ایک بار پھر جلوس پر طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا اوراس واقعہ میں محمد سکندر ملک نامی ریٹائرڈ ٹیچر گولی لگنے سے بری طرح سے مضروب ہوا 20افرا د کو چوٹیں آئیں ۔ادھر سرینگر شہر میں بھی مظاہرین اور پولیس کے درمیان پر تشدد جھڑپوں اور فائرنگ کے واقعات میں نصف درجن نوجوان صرف گولیاں لگنے کی وجہ سے مضروب ہوگئے۔ تازہ ہلاکتوں کے خلاف وادی کے طول و عرض میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور سرینگر کے متعدد علاقوں کے ساتھ ساتھ بارہمولہ، سوپور، ہندوارہ، پٹن، گاندربل، چاڈورہ، پلوامہ، بجبہاڑہ، مٹن اور کولگام میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان پر تشدد جھڑپوں ، لاٹھی چارج، ٹیر گیس شیلنگ اور فائرنگ سے درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔ادھر نماز جمعہ کے بعد پوری وادی میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں نے مظاہروں میں حصہ لیا۔

تبصرہ کریں