متاثرین کی عارضی رہائش گاہوں میں سہولیات کا فقدان

سیلاب متاثرین کو خیموں اور سرکاری اسکولوں میں بسانے کا سرکاری دعویٰ سراب ثابت ہورہا ہے۔ان خیموں اورسرکاری سکولوں میں متاثرین بے یارومددگار ہیں۔پینے کا صاف پانی ،باتھ روم،صفائی اور سردی سے بچاؤ جیسی سہولیات کا فقدان ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ دنوں سرینگرکی ضلع انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ 3500 سیلاب متاثرین کو عارضی طورخیموں ،سرکاری اسکولوں اور کمیونٹی ہالوں میں بسایا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ ریاست میں حالیہ تباہ کن سیلاب نے ساڑھے تین لاکھ تعمیرات کونقصان پہنچا یا جس میں زیادہ تعداد رہائشی مکانات کی ہے۔ شہر کے راجباغ، جواہر نگر، کرسو، اخراج پورہ، وزیر باغ، گوگجی باغ،ستھراشاہی،مندرباغ اوربمنہ جیسے علاقوں میں سیلابی پانی نے تباہی مچادی ۔سینکڑوں رہائشی مکان زمین بوس ہوگئے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں رہائشی مکانوں میں اب لوگ زندگی بسر کرنے سے کتراررہے ہیں۔واضح رہے کہ رہائشی مکانوں میں زیادہ دنوں تک پانی جمع ہونے کی وجہ سے مکانات کے ڈہ جانے کے خطرات برقرار ہیں اور لوگوں کو ماہرین کی رائے حاصل کرنے کے بعد ہی سکونت اختیار کرنے کی صلاح دی گئی ہے۔رہائشی مکانات کے اس بھاری نقصان میں سیول سیکٹریٹ سرینگر کے عقب میں واقع ستھرا شاہی علاقہ بھی شامل ہے،جہاں سیلاب سے متاثرہ کنبے خیموں،سرکاری اسکول اور ایک کمیونٹی ہال میں قیام پذیر ہیں۔اس بستی میں متعددمکان مکمل طور تباہ ہوگئے ہیں ،35رہائشی مکان ایسے ہیں جن میں شگاف پڑگئے ہیں اوراب ناقابل رہائش ہیں۔بستی کے13کنبے پولیس کے رہائشی کواٹروں میں اور8 کنبے کمیونٹی ہال میں عارضی طور قیام پذیر ہیں۔متاثرین کے مطابق چند متاثرہ کنبوں کو 37 خیموں اور بٹہ مالو کی گورنمنٹ ہائرسیکنڈری اسکول میں اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا ہے ۔بستی کے ایک نوجوان عمر امتیاز کا کہنا ہے’’کسی بھی ریاست یا ملک میں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو متاثرین کو یوں بے یارومددگار نہیں چھوڑا جاتا ہے جس طرح ہمیں چھوڑا گیا‘‘۔خود بے گھر ہوئے اس نوجوان نے کہا ’’یہ غیر سرکاری رضاکار تنظیمیں ہی ہیں جو ہمارا حال چال پوچھ رہی ہیں ورنہ سرکار نے 50کلو چاول اور ایک ایک کمبل پرچھوڑدیا تھا‘‘۔عمر نے کہا ’’انتظامیہ نے متاثرین کی عارضی رہائش کیلئے گورنمنٹ ہائرسیکنڈری سکول بٹہ مالو اور 37خیموں کا انتظام کیا جس سے ہمیں انکار نہیں ‘‘۔عمر نے سوالیہ انداز میں کہا ’’کیا رہائش کا انتظام کرنے سے ہی سرکار بھری الذمہ قرار دی جاسکتی ہے،کیا متاثرین کو باتھ روم کی ضرورت نہیں ہوتی ہے،کیا صاف وپاک ماحول میں متاثرین کے سانس لینے پر پابندی ہے‘‘۔عمر کے ان سوالات کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے محمد اسلم نامی ایک نوجوان نے کہا’’انتظامیہ نے گذشتہ سنیچر کو خیمے فراہم کیا لیکن باتھ روم ،پینے کا پانی اور دیگر سہولیات ناپید ہی ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ بستی کا دورہ کے دوران کئی بار ضلع انتظامیہ کو ان مسائل سے باخبر کیا گیا لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔اپنی بستی کی تباہی پر بات کرتے ہوئے عبدالرشید نامی ایک شخص نے کہا’’ کشمیرمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کے مناظر جا بجادیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب سینکڑوں افراد جاں بحق ،ہزاروں افراد بے گھر ہوں اورلاکھوں ہیکٹئر اراضی پر کھڑی فصلیں تہس نہس ہوچکی ہوں ، توکوئی کورچشم ہی اس بدترین صورتحال کو اطمینان بخش خیال کرسکتا ہے‘‘۔

تبصرہ کریں