کشمیر:تشدد کی تازہ لہر میں3افراد جاں بحق

سرینگر میں کرفیو
وادی کشمیر میں جمعہ کو اس وقت تشدد کی تازہ لہر بھڑک اٹھی جب سی آر پی ایف نے شمالی کشمیر کے امر گڈھ سوپور،پٹن اور چھانہ پورہ سرینگر  میں احتجاجی جلسوں پراندھادھند گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں 13سالہ بچے سمیت 3افراد جاں بحق اور درجنوں مظاہرین زخمی ہوگئے جن میں سے چھانہ پورہ کے ایک نوجوان سمیت10سے زائد افرادکی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔پٹن میں مظاہرین نے ایک نوجوان کی ہلاکت کے بعد پولیس اسٹیشن کی عمارت کو آگ لگا دی جبکہ چھورو پولیس چوکی اور پولیس ٹاسک فورس کیمپ کریری پر حملے کئے گئے۔اس دوران حریت کانفرنس (گ)کی کال کے پیش نظر سرینگر سمیت وادی کے دیگر اضلاع اور قصبہ جات میں غیر اعلانیہ کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا اور مقامی لوگوں کی نقل وحرکت پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔واضح رہے کہ حریت کانفرنس نے ‘کشمیر چھوڑدو ‘ مہم کے تحت جمعہ کو سرینگر کیلئے مائسمہ چلو کی کال دی تھی جبکہ دیگر اضلاع کے لوگوں کیلئے ضلع کی مرکزی مساجد میں نماز جمعہ  ادا کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
29اور 30جولائی کی درمیانی رات کوموصولہ اطلاعات کے مطابق اولڈ چھانہ پورہ علاقے میں فورسز اہلکاروں نے کئی مکانوں کی توڑ پھوڑ اور مکینوں کی مار پیٹ کی جس کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے صبح سویرے ہی لوگوں کی بڑی تعداد سڑکو ںپر نکل آئی۔اسی دوران اولڈ چھانہ پورہ کے لون محلہ سے لوگوں کا ایک جلوس بر آمد ہوا اورچھانہ پورہ چوک کی طرف پیش قدمی شروع کی ۔ سی آر پی ایف اہلکاروں نے جلوس کو روک کر ٹیر گیس شیلنگ کی لیکن اس کے با وجود لوگوں نے احتجاج جاری رکھا جسکے بعد فورسز اہلکاروں نے اپنی بندوقوں کے دھانے مظاہرین پرکھول دئے اور اندھا دھند گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں علاقے میں افراتفری پھیل گئی ۔گولیوں کی زد میں محمد اقبال خان ساکن چھانہ پورہ کے علاوہ محمد عامر ،ساجد احمد ،عرفان احمد اور فیاض احمد ساکنان نوگام زخمی ہو گئے ۔محمد اقبال کے سینے میں گولی پیوست ہو گئی اور اسے صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ منتقل کیا گیا جہاں اس کا ہنگامی آپریشن کرنے کے بعد اسے انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں رکھا گیا ۔اسپتال ذرائع کے مطابق محمد اقبال کی حالت انتہائی تشویشناک ہے ۔واقع کی خبر پھیلتے ہی چھانہ پورہ کے ملحقہ علاقہ جات سے لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ۔اس موقع پرمظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں جبکہ نماز جمعہ کے بعد چھانہ پورہ سے لالچوک کی طرف آ رہے ایک جلوس کو رام باغ کے نزدیک زبردست ٹیر گیس شیلنگ سے تتر بتر کر دیا گیا اور اس کارروائی میں 15افراد کو چوٹیں آئیں ۔اس صورتحال کی وجہ سے شہر کے سول لائنز علاقوں میں سختی کے ساتھ کرفیو نافذ کر دیا گیا اور سڑکوں پر فورسز کی مزید کمک تعینات کی گئی ۔اس دوران نماز جمعہ کے بعد سوپور قصبہ کے امر گڈھ علاقہ میں اس وقت قیامت صغریٰ بپا ہوئی جب لوگ نماز ادا کرنے کے بعد ایک ہی جگہ پر جمع ہوئے اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے جلوس نکالا ۔مظاہرین نے پر امن مارچ کرتے ہوئے ریلوے ٹریک کی طرف مارچ کیا اور اس موقعہ پر وہاں177بٹالین سے منسلک سی آر پی ایف کی ڈیلٹا کمپنی کی ایک ون ٹن اور 2جپسیاں موجود تھیں۔عینی شاہدین کے مطابق سی آر پی ایف اہلکاروں نے جلوس کو روکنے کی کوشش کی تو مظاہرین نے ان پر پتھرائو کیا ۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ سی آر پی ایف کی مذکورہ بٹالین کا کمانڈنگ آفیسر اوپل جین اپنے اسکارٹ کے ہمراہ ریلوے لائن کا معائینہ کرنے کے بعد انہی گاڑیوں کے قافلے میں واپس آ رہا تھا اور جلوس کو دیکھتے ہی کسی اشتعال کے بغیر سی آر پی ایف اہلکاروں نے مظاہرین پر اندھا دھند  گولیاں چلائیں۔اس موقع پر وہاں اتھل پتھل مچ گئی اور زخمی افراد سڑک پر گرنے کے بعد مدد کیلئے چیخنے چلانے لگے ۔فائرنگ کے اس واقعہ میں 3بچوں کاباپ45سالہ محمد احسن گنائی اور22سالہ شوکت احمد وگے ساکنان امر گڈھ موقعہ پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ نصف درجن سے زائد افراد شدید زخمی ہو گئے جن میں سے شبیر احمد راتھرصورہ اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔دیگر زخمیوں کو سرینگر کے مختلف اسپتالوں میں داخل کر دیا گیا ہے ۔اس واقعہ کے بعد ہزاروں لوگوں نے مختلف علاقوں میں سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرے شروع کئے اور اس دوران پولیس چوکی پتو کھاہ پر مشتعل مظاہرین نے پولیس کی2گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔مشتعل مظاہرین نے  امرگڈھ کے نزدیک ریلوے ٹریک کو بھی اکھاڑ دیا۔ادھر نماز جمعہ کے بعد پٹن میں بھی اُس وقت بھیانک تشدد بھڑک اٹھا جب سرینگر مظفر آباد شاہراہ پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے بازی شروع کرنے کے بعد پولیس اور سی آر پی ایف زور دار سنگباری کی ۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ٹیر گیس کے سینکڑوں گولے داغے اور ہوائی فائرنگ کی تاہم جلوس  منتشر ہونے کی بجائے اس میں مزید لوگ شامل ہو گئے ۔ سنگھپورہ سے بھی ہزاروں لوگوں پر مشتمل جلوس پٹن پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور بیک وقت کئی جگہوں پر پولیس پر دھاوا بول دیا گیا ۔عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین نے پولیس پر اس قدر زور دار سنگباری کی کہ پولیس اور سی آر پی ایف اہلکار پولیس اسٹیشن پٹن میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ۔اسی دوران نوجوانوں نے پولیس اسٹیشن کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیکر زور دار پتھرائو کیا اور گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے جہاں موجود پولیس کی ایک ون ٹن گاڑی اور تھانے کی ایک عمارت کو آگ لگا دی گئی جس کے نتیجے میں پولیس و فورسز اہلکار پچھلی عمارت کے عقب میں مورچہ زن ہوگئے ۔صورتحال کو قابو سے باہر ہوتا دیکھ اہلکاروں نے پہلے ہوا میں گولیوں کی بارش کر دی اور جب مشتعل ہجوم نے دوسری عمارت کی طرف پیش قدمی شروع کی تو پولیس و فورسز اہلکاروں نے مظاہرین پر راست فائرنگ کی۔گولیوں کی گن گرج کا سلسلہ لگاتار ایک گھنٹے تک جاری رہا جس کے نتیجے میں پٹن کی سڑکوں پر آناً فاناً زخمیوں کے ڈھیر لگ گئے اور لوگ زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے لگے ۔اس واقعہ میں 10پولیس اہلکاروں سمیت 40افراد زخمی ہو گئے جن میں سے ذرائع کے مطابق گولیوں کے شکار18زخمیوں کو سرینگر کے مختلف اسپتالوں میں داخل کر دیا گیا ہے جن میں سے 5کی حالت نازک بتائی جارہی ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ زخمیوں میں سے بیشتر افراد کے جسم کے اوپری حصوں میں گولیاں لگی ہیں ۔اس صورتحال کے نتیجے میں پورے پٹن قصبہ میں قیامت کا سماں پیدا ہوا اور ہر طرف غم و الم اور آہ و فغاں کا ماحول چھا گیا ۔اسی دوران افراتفری کے عالم میں کچھ نوجوانوں نے 13سالہ رفیق احمد بٹ ساکن بانڈ محلہ پلہالن پٹن کو ہائر اسکنڈری روڑ پر خون میں لت پت بر آمد کیا ۔رفیق کو اسپتال پہنچایاگیا تاہم ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا ۔زخمیوں میں نذیر احمد ساکن شیری بارہمولہ نامی نانوائی کے سر میں گولی لگی ہے اور اس کی حالت بھی انتہائی نازک بتائی جا رہی ہے ۔ اسی دوران مشتعل مظاہرین نے بابہ ٹینگ کے نزدیک ایس او جی کیمپ پر دھاوا بول پر اسے نذر آتش کرنے کی کوشش کی ۔بدھوار کی شب سرینگر بارہمولہ شاہراہ پر چھورو سوپور کے نزدیک مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے دوران ٹیر گیس شیلنگ اور ہوائی فائرنگ سے پھیلی افراتفری کے عالم میں پولیس نے 39نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جبکہ ایک درجن سے زائد نوجوان لاپتہ تھے ۔ گمشدہ نوجوانوں کے گھر والوں نے اپنے عزیز و اقارب کا پتہ لگایا ،جن میں سے کچھ ایک پولیس حراست میں ہیں جبکہ بعض نوجوان اپنے رشتہ داروں کے ہاں پائے گئے لیکن اس واقعہ میں لا پتہ ہونے والے فسٹ ائر کے طالب علم 21سالہ سید فرحت بشیرساکن پیر محلہ کریری کا ابھی تک کوئی اتہ پتہ نہیں ملا ہے اور نہ ہی پولیس نے اس کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے ۔چنانچہ جمعہ کی صبح کریری اور ملحقہ دیہات کے ہزاروں مرد و زن گھروں سے باہر آئے اور فرحت بشیر کی بازیابی کے حق میں احتجاجی مظاہرے شروع کئے ۔مظاہرین نے جلوس کی صورت میں سرینگر مظفر آباد شاہراہ پر چھورو تک مارچ کیا اور بعد میں واپس جا کر پولیس اسٹیشن کریری کے باہر دھرنا دیکر بیٹھ گئے ۔مظاہرین کا الزام تھا کہ بدھوار کو پولیس کارروائی کے دوران فرحت بشیر کو پولیس نے شدید مار پیٹ کے بعد جپسی میں سوار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فرحت بشیر ان کی حراست میں نہیں ہے ۔چنانچہ قصبہ کے لوگوں نے نماز جمعہ کے بعد پرانے پولیس اسٹیشن کی عمارت میں قائم ایس او جی اور سی آر پی ایف کے مشترکہ کیمپ پر دھاوا بول کر عمارت کی زبردست توڑ پھوڑ کی ۔ اس موقعہ پر ایس او جی اور سی آر پی ایف اہلکاروں نے قریب35منٹ تک ہوائی فائرنگ کی۔ پولیس نے  بارہمولہ سے مزید کمک طلب کی جس کے بعد انہوں نے وہاں پہنچتے ہی مظاہرین پر ٹیر گیس کے گولوں کی بارش کر دی اور ہوا میں گولیوں کے سینکڑوں رائونڈ چلائے۔پولیس کی طرف سے ٹیر گیس شیلنگ ،ہوائی فائرنگ،افراتفری اور مار پیٹ کی کارروائی میں تقریباً50افراد زخمی ہو گئے جن میں نصف درجن سے زائد خواتین بھی شامل ہیں ۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے فرحت بشیر کے موبائیل فون کا ریکارڈ حاصل کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے اور اسے باز یاب کرانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ فرحت کو نہ پولیس نے گرفتار کیا ہے اور نہ ہی وہ پولیس کی تحویل میں ہے ۔بارہمولہ سے اطلاعات ہیں کہ قصبہ میں مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر پولیس اور فورسز پر زبردست پتھرائو کیا جس کے جواب میں ان پر ٹیر گیس کے گولے داغے گئے اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے پورا دن جاری رہااور اس صورتحال کی وجہ سے قصبہ کی صورتحال انتہائی کشیدہ رہی ۔ادھر جنوبی قصبہ اسلام آباد ، پلوامہ،ترال ،پانپور اور شوپیان میں سخت ناکہ بندیوں کے با وجودمظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں ۔

تبصرہ کریں