وادی گریز:اُجڑنے کے لمحات انتظار گن رہا ہے گلشن!

11/08/2012

ماضی قریب میں تاریخی و تجارتی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل گریز وادی اپنے وجود کیلئے ارباب اختیار کے سامنے دامن پھیلائے ہوئے ہے۔ گریز جو آج کل کشن گنگا پن بجلی پروجیکٹ کی وجہ سے ہندوپاک میں ہی نہیں بلکہ ریاست کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں موضوعِ بحث بن چکاہے ،اپنی منفرد شناخت کے آخری پڑاؤ پر ہے ۔گریز کی گرد آلود سڑکوں پر اگر کچھ نظر آرہا ہے تو فقط قیمتی گاڑیوں میں رواں دواں کشن گنگا پروجیکٹ کا عملہ یا وہ مشینیں جو ہمہ وقت خوبصورت پہاڑوں کو چیرتے ہوئے ٹنل کھودنے میں مصروف عمل رہتی ہیں۔ ہر طرف جدید مشینری نے قدرتی نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے اورماحول کو جہنم زاربنادیا ہے۔اگرچہ کشن گنگا پروجیکٹ گریز کی آبادی کے ایک بڑے حصے کیلئے روزی روٹی کا سامان فراہم کررہا ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ گریز کے اکثر لوگ مذکورہ پروجیکٹ کو اس پرکشش وادی کی شناخت کے تابوت میں آخری کیل سے تعبیر کررہے ہیں۔ Read the rest of this entry »


وادی گریز۔۔۔راہوں پہ تاریخ رقم ہے جس کی

08/08/2012

گریز ایک حسین وادی ہے جو اپنے قدرتی حسن کے باعث انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ وادی ریاست جموں وکشمیر کے شمالی ضلع بانڈی پورہ کی ایک تحصیل ہے۔ دریائے کشن گنگا اس وادی کے قلب میں بہتا ہے۔ یہ وادی ریاست کی گرمائی راجدھانی سرینگر سے 123کلومیٹر دوراور سطح سمندر سے 8ہزار فٹ کی بلندی پر اونچے ہمالیائی سلسلے میں واقع ہے ۔ یہاں کی آبادی کشمیری اورشینا جانتی ہے۔ یہ علاقہ جنگلات اور چرا گاہوں سے اٹا ہوا ہے اور خوبصورت نظارے اس کو زمین پر جنت بناتے ہیں۔ یہ وادی موسم گرما (مئی تا ستمبر) میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔موسم سرما میں نقل و حمل مشکل ہو جاتی ہے۔ بانڈی پورہ سے سومو گاڑیوں یا دیگر ذرائع نقل و حمل سے گریز پہنچا جا سکتا ہے۔ بانڈی پورہ سے گریز تک کے تمام راستے میں حسین جنگلات اور پہاڑ دعوت نظارہ دیتے رہتے ہیں۔ Read the rest of this entry »


شاہراہوں کا مرکز۔۔۔گریز

07/08/2012

 

گریز وادی کو وسطی ایشیاء سے کم وبیش 6شاہراہیں ملاتی تھیں ۔1947ء کے بعد وہ سب راستے بند کئے گئے اورگریزکا وسطی ایشیاء تو دور وادی کشمیر سے بھی 6ماہ ہی سڑک رابطہ رہتا ہے۔شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع صدر مقام سے86اور سرینگرسے123کلومیٹر کی دوری اورسطح سمندر سے8ہزار فٹ کی بلندی پر اونچے ہمالیائی سلسلے میں واقع یہ وادی چاروں اطراف سے پہاڑوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ Read the rest of this entry »