سوشل میڈیا نے خالد بزاز کو عالمی سطح پر پہچان دلائی

کامیابی کی کہانیاں لوگوں میں منفی حالات کو سازگار بنانے اور جدوجہد کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔ کامیابی کی کہانیوں سے لوگوں کو بہت سارے سبق ملتے ہیں۔ یہ کہانیاں بتاتی ہیں کہ محنت اور جدوجہد کے بغیر کامیابی نہیں ملتی۔جموں کشمیر میں کامیابی کی ایسی بہت منفرد کہانیاں ہیں، جو زمانے تک لوگوں کو تحریک دیتی رہیں گی۔ ایسی ہی ایک مثال اور کہانی سرینگر کے 43سالہ خالد بشیر بزاز کی ہے ۔خالدبزاز نے زندگی میں بہت ساری مشکلات، مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کیا اور اپنی محنت اور جدوجہدسے کامیابی حاصل کرنے کے مضبوط جذبے سے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کو ترغیب دی کہ نوجوانوں کو سرکاری نوکری کا متلاشی بننے کے بجائے خودروزگارکوبھی ترجیح دینی چاہئے۔

خالد نے سکولی ایام میں ایک انجینئر بننے کا خواب دیکھا تھا لیکن اپنے والد پر مالی بوجھ ڈالنے کیلئے تیار نہیںہوا۔ ایس پی کالج سے بی ایس سی الکٹرانکس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بزاز نے سرکاری نوکری کیلئے ایک دو دفعہ ہاتھ پیر مارے جو اُس کے والد صاحب کا شوق تھالیکن سرکاری دفتر میں درجہ چہارم کی نوکری کے بجائے اُس نے ایک مقامی سکول میں ایک استاد کے طور پر اپنی مالی ذمہ داریوں کو پوراکرنا شروع کیا۔یہاں ماہانہ 1500 روپئے کی معمولی آمدنی حاصل ہونے لگی۔اپنے خاندان کی مزید مدد کرنے کیلئے خالد نے ایک ٹیوشن سنٹربھی قائم کیا اور اپنے سکول کے باقاعدہ اوقات کے بعد کلاسز کی پیشکش شروع کی۔خالد کا کہنا ہے کہ کاروباری دنیا میں آنے کیلئے اُس کی حوصلہ افزائی اُسی سکول میں ہوئی جہاں وہ کام کررہا تھا۔اُس نے خواتین اساتذہ کے دوپٹوں کو رنگنے (Dye)اورپیکو (Pico)کرانے کی شروعات کی ۔
بزاز کا سفر حقیقی معنوں میں اس وقت شروع ہوا جب اس نے 2003میں علمگری بازار سرینگر میں ’لیڈی ہٹ (Lady Hut)‘نامی خواتین کے ملبوسات کی ایک چھوٹی دکان شروع کی تھی۔دکان کو خریدنے اور کام کاج چلانے کیلئے کافی رقم کی ضرورت تھی جس کیلئے خالدنے اپنی ماں کے زیورات بھی فروخت کئے۔ اس نے ٹیوشن سے حاصل ہونے والی کمائی کو اس منصوبے کو شروع کرنے کیلئے ذہانت سے استعمال کیا۔ خالد بزازنے جب کاروبار کی دنیا میں قدم رکھا تھا تو انہیں کوئی نہیں جانتا تھا بلکہ صفر سے ان کا سفر شروع ہوا تھا۔انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’میں کبھی کبھارنفع حاصل کئے بغیر بھی کپڑے بیچتا تھا، صرف اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ میں کاروبار جاری رکھوں اوراپنی دکان میں کوئی ذخیرہ جمع نہ کروں‘‘۔
خالد کا کہنا ہے کہ اس کے دونوں بھائیوں عرفان بشیر بزاز اور شاہد بشیر بزاز نے اس کوشش میں اہم کردار ادا کیابلکہ یوں کہا جائے کہ انہوں نے اپنے کاروبار کی کامیابی کیلئے خود کو وقف کر دیا۔ خالد کہتے ہیں’’ہم نے صفر سے آغاز کیا اوراللہ کے فضل سے زبردست کامیابی حاصل کی۔ سفر مشکل ضرور رہا لیکن ہمت کے ساتھ اس کا سامنا کیا ۔ میں اپنے خاندان کی طرف سے سکھائے گئے قیمتی اسباق کی وجہ سے پُرعزم تھا۔انہوں نے میرے اندر چیلنجوں اور ناکامیوں کا مقابلہ کرنے کاحوصلہ بخشا تھا ‘‘۔خالد نے فخریہ لہجے میں کہا’’میرا پورا خاندان اب اس کاروبار میں شامل ہے۔ میرے والدین، میرے بھائی اور یہاں تک کہ میرے چند چچا زاد بھائی عرفان بشیر بزاز اور شاہد بشیز بزازبھی اس کاروبار کو آگے بڑھانے میں دن رات کام کررہے ہیں۔ اب ہم تین بھائی نہیں رہے بلکہ ہم پانچ بھائیوں کی ایک ٹیم ہے جو متحد اور پرعزم ہیں‘‘ ۔
سوشل میڈیا نے چند سالوںمیں بزاز کیلئے حیرت انگیز کارنامہ انجا دیا۔فیس بک ،یوٹیوب اور انسٹاگرام نے ان کے برانڈ کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا ہے، جو ان کی لگن اور عزم کو ظاہر کرتا ہے۔خالد کا کہنا ہے کہ ’یوٹیوب پر ہم 1 ملین سبسکرائبرزکے سنگ میل کے قریب پہنچ چکے ہیں‘۔بزاز انسٹاگرام پر3لاکھ11ہزار فالوورز حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، جہاں وہ اپنی مصنوعات کے ویڈیوز اور تصاویر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں یوٹیوب پربھی’لیڈی ہٹ اپیرلز‘ کو لوگ بڑی تعداد میںفالوکرتے ہیں۔اس وقت ’لیڈی ہٹ اپیرلز‘7لاکھ48ہزار سبسکرائبرزکے ساتھ تصدیق شدہ اکاؤنٹ ہے۔فیس بک پر ’لیڈی ہٹ‘کے 4لاکھ37ہزار فالوور ہیں جہاں خالد بزازتقریباً روزانہ اپنی مصنوعات کی تشہیر کرتے رہتے ہیں بلکہ حال ہی میں بچوں کا ایک خوبصورت سوال و جواب کا پروگرام بھی پیش کیا جسے صارفین نے خوب سراہا۔
سوشل میڈیا کا اثر ایسا ہوا کہ بزاز نے اب اپنی کمپنی کو لیڈی ہٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے رجسٹر کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ’میرے کاروبار کو عالمی سطح پر پہنچانے میں سوشل میڈیا کا کلیدی رول ہے ‘ ۔ انہوں نے کہا’’ہم یہاں کشمیر میں خواتین کیلئے روایتی سوٹ ڈیزائن اور تیار کرتے ہیں اور انہیں دنیا بھر میں بھیج رہے ہیں۔ یہ اسلئے ممکن ہوا ہے کیونکہ انسٹاگرام، یوٹیوب اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا ’’جموں و کشمیر میں ’لیڈی ہٹ ‘ سبھی اضلاع میں پہنچانے کے بعد میرا شوق ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی قسمت آزمائوں بالخصوص برمنگھم میں لیڈی ہٹکو متعارف کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
خالد بشیر بزازاب چھوٹے دکاندار نہیں رہے بلکہ ایک کاروباری شخصیت ہیں جو اپنے کاروبار کے ذریعے 65سے زائد لوگوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں۔خالد کا کہنا ہے ’’میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے قابل بننا چاہتا ہوں جو ایک بہتر معاشرے کی تعمیر میں ایک چھوٹا سا کام ہو گا‘‘۔اس نے مزید چار دکانیں اور ایک مینوفیکچرنگ مرکز بھی شامل کیا ہے۔
کامیابی کے پیچھے سب سے اہم کردار خوش اخلاقی کا ہوتا ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی خوش اخلاقی کا دامن کبھی نہ چھوٹنے پائے۔ایک چینی کہاوت ہے’’ جس چہرے پر مسکراہٹ نہیں اور جس کا اخلاق اچھا نہیں، اسے دکان نہیں کھولنی چاہئے‘‘۔بزاز میں یہ سب خوبیاں موجود ہیں جس نے اسے آج اس بلندی تک پہنچایا ہے۔ خالد بشیر کا نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ گول بدلنے کی بار بار ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک گول متعین کرلیں ،صرف لگن سے کام کریں، توجہ مرکوز رکھیں، غیر متزلزل قوت ارادی پیدا کریں اور اپنے مقاصد کیلئے پرعزم رہیں۔

تبصرہ کریں