ماحولیاتی آلودگی :انسانی وجود کو درپیش دورِ جدید کا سنگین خطرہ

ماحولیاتی آلودگی موجودہ دور میں درپیش کلیدی مسائل میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس نے کرئہ ارض کے ماحولیاتی نظام کے نازک توازن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔گاڑیوں کے بیجا شور، فضول قسم کے لائوڈ اسپیکر، مختلف مشینری سے پیدا ہونے والی بے ہنگم آوازوں کے ساتھ ساتھ ہوا میں موجود زہریلے مادے، گاڑیوں سے خارج شدہ دھوئیں، پانی میں سیوریج کے نظام کی تباہی کی وجہ سے موجود جراثیم غرض یہ کہ ہر طرح کی آلودگی نہ صرف انسانی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ انسان کے سوچنے سمجھنے والے دماغی خلیوں پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ انسانی صحت کیلئے کھلی فضا اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری ہے لیکن اس تیز رفتار سائنسی دور میں انسان کو نہ صاف ہوا میسر ہے اور نہ کھلی فضا۔ موجودہ دور میں انسان آلودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور ایک فعال زندگی گزارنے کی بجائے ذہنی کوفت میں مبتلا ہو رہا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کے اثرات دور رس ہیں جو فطرت اور انسانی آبادی دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔پانی کی آلودگی پینے کے پانی کے ذرائع کو آلودہ کرتی ہے، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور آبی انواع کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ مٹی کی آلودگی زرعی پیداوار کو کم کرتی ہے، جس سے غذائی عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے اور انسانی صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ آلودگی ماحولیاتی نظام میں خلل ڈالتی ہے، جس سے حیاتیاتی تنوع میں کمی اور ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس کے کرئہ ارض کی مجموعی صحت پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ آلودگی کے مضر اثرات عالمی سطح پر محسوس کئے جاتے ہیں اور کوئی بھی ملک یا قوم اس کے نتائج سے محفوظ نہیں ہے۔
سڑکوں پر رواں دواں دھواں اڑاتی ہوئی گاڑیاں فضائی آلودگی میں اضافہ کا باعث ہیں۔ ہمارے یہاں روش چل پڑی ہے کہ ہر معاملے میں گاڑی کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ان سڑکوں کے ارد گرد اور درمیان میں سبزہ اور ماحول دوست پودوں کی کمی ہے۔عام تاثر ہے کہ جوہری بم سے کئی گنا خطرناک گلوبل وارمنگ ہے جس کے اثرات سے کرئہ ارض خطرات میں گھیرا ہوا ہے۔ ماضی کی نسبت اب موسم گرما میں گرمی کی عمومی صورتحال شدید ہو رہی ہے اور گرمی شدت سے بڑھ رہی ہے جبکہ سردیوں کا موسم سکڑتا جا رہا ہے۔ موسمی تغیر کے باعث کہیں قحط اور خشک سالی کی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔ یہ سب در اصل گلوبل وارمنگ ہی کا نتیجہ ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے زراعت متاثر ہورہی ہے اور خوراک کی قلت بھی بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب صنعتی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ اکثر اشیا کی تیاری میں خام مال زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق آب و ہوا کی تبدیلی سے دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔
قدرتی ماحول میں غیر ضروری اجزاء کا شامل ہو جانا آلودگی کہلاتا ہے۔ یہ ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو ماحول کو ناخوشگوار بنا دیتے ہیں۔ فضائی اور آبی آلودگی سے لے کر مٹی کے انحطاط اور صوتی آلودگی تک ہمارے غیر پائیدار اقدامات کے نتائج تیزی سے واضح ہو رہے ہیں۔انسان نے جب اپنے آرام اور سکون کی خاطر قدرت کے خوبصورت نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال شروع کیا تو فطرت نے رد عمل ظاہر کیا اور ماحولیاتی آلودگی نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا جو بنی نوع انسان کے علاوہ کرئہ ارض پر ہر قسم کے جانداروں کیلئے بھی انتہائی خطرناک ہے۔تیزی سے بڑھتی ہو ئی آبادی کیلئے زمین کے سینے سے ہرے بھرے درختوں کا قتل عام بھی جاری و ساری ہے۔ حالانکہ درخت کائنات کے پھیپھڑوں کے مانند ہیں، جو مہلک کثافت کواپنے پتوں میں جذب کر کے جانداروں کی بقا کے لئے آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ جنگلات زمین کا حسن ہی نہیں بلکہ یہ انواع واقسام کے پرندوں اور جانوروں کا مسکن بھی ہیں۔
ماحول انسان کیلئے ہے اور انسان ہی اس میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔ اس کا نقصان بھی انسان کو ہی ہے ،ہمیں نہیں تو ہماری آنے والی نسلوں کو ہوگا۔ اس ماحول کا تحفظ انسان کی ذمہ داری ہے کیونکہ کائنات کے توازن میں بگاڑ کا سب سے زیادہ ذمہ دار بھی انسان ہی ہے۔ما دہ پرستی ، حرص و ہوس اور پر تعیش زندگی نے انسانیت کو ماحولیاتی آلودگی کی شکل میں ایک تباہ کن تحفہ دیا ہے۔اس وقت ہمارا قدرتی ماحول، ہماری زمین اور اس کے وسائل شدید خطرات کی زد میں ہیں۔اس کا اصل سبب ترقی کی دوڑ اور زیادہ سے زیادہ پر تعیش زندگی کی ہوس ہے۔ بڑھتی ہوئی صنعت کاری، آمدورفت کے بڑھتے ہوئے ذرائع اور شہر کا ری(Urbanization)یہ تمام جدید تہذیب وتمدن کی نشانیاں ہیں۔ یہ اور اس جیسے کئی عوامل مل کر ماحول کو آلودہ کرنے میں بہت اہم رول ادا کررہے ہیں۔ جنگلات کا بے دریغ کٹائو ،ایندھن، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں ، دنیا کے مختلف خطوں میں آئے دن ہورہی جنگوں میں استعمال مہلک بارود فضا ئی آلودگی کا سبب ہیں۔
سائنسی ترقی کی بدولت صنعت و حرفت کے میدان میں بے پناہ انقلاب آگیا۔اس انقلاب اور ترقی کی بدولت ہماری زندگی بہت سی بنیادی سہولتوں سے آشنا ہوئی۔مثال کے طور پر ہفتوں اور مہینوں میں کیا جانے والا سفر دنوں اور گھنٹوں میں ہونے لگا۔ کام کے معیار اور مقدار میں اضافہ ہوا۔غرض انسانی سہولت کی بے شمار اشیاء سامنے آئیں،جن کی بدولت انسانی زندگی بنیادی سہولتوں سے ہمکنار ہوئی،لیکن کئی ایسے مسائل نے جنم لیا،جو انسانی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ان مسائل میں ایک اہم اور بنیادی مسئلہ آلودگی کا ہے۔آلودگی ہمارے ماحول کو خاموشی سے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ یہ زمین،پانی اور ہوا کو ضرررساں بنا رہی ہے جس کی وجہ سے نئی نئی بیماریاں انسانی زندگی کو اپنے گھیرے میں لے رہی ہیں۔ٹائی فائیڈ،یرقان،اسہال اور کئی طرح کی بیما ریاں عام ہو رہی ہیں۔صنعتی علاقوں کے زہریلے مادے زمین پر بکھر کر مٹی کی قوتِ نمو کو اپنے زہریلے پن کی وجہ سے بنجر بنا رہے ہیں۔اس وجہ سے نہ صرف ہماری زمین کی زرخیزی میں فرق آرہا ہے بلکہ ہماری فصلوں کے معیار اور مقدار میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔یہ آلودگی ہمارے اعصاب، ذہن اور جسم پر انتہائی بْرے اثرات مرتب کرتی ہے۔شور کی آلودگی سے انسانوں میں بْردباری،متانت،تحمل اور قوتِ برداشت ختم ہو جاتی ہے اور کئی طرح کے نفسیا تی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ماہرین کے مطابق قوتِ سما عت اور قوتِ مدافعت میں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو ماحولیات کو اپنے ذاتی مفادات پر قربان کر رہے ہیں۔ قدرتی ذخائر کو تباہ کر رہے ہیں، جنگلوں اور پہاڑوں کو تباہ کر رہے ہیں، چراگاہوں کو پامال کر رہے ہیں، زیر زمین اورزیر آب ذخائر کا بے دریغ استعمال کرکے در حقیقت آئندہ انسانی نسلوں کو ان نعمتوں سے محروم کر رہے ہیں اور انہیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ماحول کو صاف ستھرارکھیں تاکہ ہمارے اردگردتیزی سے بڑھتی ہوئی ان آلودگیوں پر قابو پایا جاسکے۔پائیدار طریقوں کو اپنانے، موثر ضوابط کو نافذ کرنے، قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری، تعلیم اور بیداری کو فروغ دینے اور عالمی تعاون کو فروغ دینے سے ہم اجتماعی طور پر آلودگی کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم فیصلہ کن طور پر کام کریں اور آلودگی سے پاک دنیا کیلئے کام کریں، جو سب کیلئے ایک پائیدار اور فروغ پذیر ماحول کو یقینی بنائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحول میں ہونے والی منفی تبدیلیوں کی روکتھام کیلئے شجر کاری کی جائے،فیکٹریوں اور گھروں کے فضلات پانی میں نہ پھینکی جائیں،زہریلے دھوئیں کے اخراج پر کنٹرول کیا جائے، حفظان صحت کے امور سے متعلق عوام میں شعور پیدا کیاجائے کہ اگر انہوں نے اپنے ماحول کو صاف و شفاف نہ رکھا تو ایک دن وہ ان کی ہلاکت کا باعث بنے گا ۔

تبصرہ کریں