ایک گمنام شاعر سادگی جس کا لبادہ تھا

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نام و نمود سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے سماج کی خدمت اس طرح کر تے ہیں کہ زندگی میں تو ان کی کوئی قدر نہیں ہوتی لیکن موت کے ساتھ ہی اس کی اہمیت کا راز کھلتا چلا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے نام ونمود کے بجائے گمنامی کی زندگی بسر کی۔ ایسی ہی شخصیت ہمارے گائوں دہرمنہ بڈگام کی عبدالاحد ملک کی ثابت ہوئی۔موصوف بہت اچھے شاعر اور ادیب تھے لیکن انہوں نے گمنامی میں ہی زندگی بسر کی اورکبھی اپنا کلام منظر عام پر نہیں لایا۔عبدالاحد ملک پیشے سے ایک دکاندار تھے ۔انہوں نے اپنے طرز تکلم اور بہترین تاجر کی حیثیت سے علاقے میں ایک خاص پہچان بنائی تھی۔

کہتے ہیں کہ شاعر کو اپنے جائز مقام کے حصول کیلئے کچھ بہت زیادہ نہیں صرف مرنا پڑتا ہے۔عبدالاحد ملک 3جولائی 2023کو 81سال کی عمر میں انتقال کرگئے ۔ ان کی تعزیت پرسی پر بستی کے عبدالعزیز نامی ایک شخص نے اپنی خوبصورت آواز میں ماہ رمضان کے الوداع پر چند اشعار پڑھے جس سے مجلس میں بیٹھے لوگ ششدر ہوکے رہ گئے۔مذکورہ شخص سے پتہ چلا کہ اس عمدہ کلام کے تخلیق کار مرحوم عبدالاحد ملک ہی ہیں۔ اُن کے انتقال سے چند ماہ قبل’ فیس بک‘پر اُن کے فرزند نسبتی عاشق حسین ملک کے اکائونٹ سے کچھ ویڈیو منظر عام پرآئے جن میں مرحوم ناساز طبیعت کے باوجود اپنے کلام کو نہ صرف سنارہے تھے بلکہ کمرے میں بیٹھے اپنے اہل خانہ کو سمجھارہے ہیں۔وہ ویڈیو بستی کے نوجوانوں نے بہت زیادہ شیئر کئے اور مرحوم عبدالاحد ملک عرف احد کاک کی شخصیت اور کلام میں دلچسپی ظاہر کرنے لگے لیکن شائد اللہ کو بھی مرحوم کی گمنامی ہی پسند تھی کیونکہ اُن کے کلام کو سوشل میڈیا پر منظرعام پر لانے کی کوشش میں مصروف عاشق حسین ملک خود اس قابل نہیں رہے۔عاشق حسین ایک جان لیوا مرض میں مبتلا تھے اور اپنے والد نسبتی کے انتقال کے محض تین ماہ بعد20اکتوبرکو اپنے لواحقین اور عزیزواقارب کو داغ مفارقت دے گئے۔ مرحوم پاکیزہ اخلاق،نیک صفت اورلائق و قابل ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ ملنسار،مہمان نوازاور بردباری کے اعلیٰ اوصاف سے متصف تھے۔
ٍ مرحوم عبد الاحد ملک کے حالاتِ زندگی پر کسی نے آج تک کوئی ایسی تحریر قلمبند نہیں کی جس سے ان کی زندگی کا احاطہ ہو سکے۔اُن کے دوستوںکا کہنا ہے کہ موصوف کو فارسی ،اردو اورکشمیری زبانوں پر عبور حاصل تھا حالانکہ انہوں نے کسی یونیورسٹی سے کوئی ڈگری حاصل نہیں کی تھی بلکہ ایک مڈل پاس شخص تھے۔اسے مرحوم کی سادہ مزاجی کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے بھی کبھی اپنے کلام کو شائع کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔شاعری دراصل حالات و واقعات کی ترجمان ہوتی ہے اور اُس معاشرے اور ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں شاعر رہتا ہے، صرف فنِ شاعری ہی شاعری کا موجد نہیں بلکہ وہ جذبات، احساسات اور ماحول و حالات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کرتے ہیں بس وہی شاعری ہے، وہی امر ہو جاتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں سینکڑوں شعراء کے کلام میں ایسی تہہ داری، گہرائی اور آفاقی حقائق کی دنیا پویشدہ ہے کہ ان اشعار کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور یہ اشعار سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے ہزاروں دلوں کی زبان بن جاتے ہیں لیکن بعض اشعار اس طرح شہرت حاصل کرلیتے ہیں کہ ان کے خالق کے بارے میں جو روایت برسوں سے بیان کی جاتی ہے، اسے ہی درست تصور کرلیا جاتا ہے۔حالانکہ بعض مشہور اشعار کے خالق بھی گمنام شعراء ہیں لیکن ان اشعار کو یا تو عقیدتاً کسی بڑے شاعر سے منسوب کردیا جاتا ہے، یا شعر کی زبان، اسلوب، ہئیت اور لفظوں کے زیر و بم کے باعث علامہ اقبالؒ سے منسوب کردیا جاتا ہے یا میر، غالب، حالی، انیس، ذوق اور سودا جیسے شعراء سے اس کی نسبت درست تصور کی جاتی ہے۔شاعری کو کسی بھی شاعر کی اولاد کہا جا تا ہے۔ جب بھی کوئی شاعر شعر تخلیق کرتا ہے تو وہ اس شعر سے بلاشبہ اولاد جیسی محبت کرتا ہے۔ اگر کسی کی اولاد کو کسی دوسرے کا نام دے دیا جائے تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا؟ ہماری قوم شاعر یا ادیب پر مٹی ڈالنے کے بعد ہی اس کے کام، نام اور اس کے رنگ سے واقف ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو رنگ بھی ان کی اندھی عقیدت میں ایسے دھندلا جا تے ہیں کہ تمیز ہی نہیں کر پاتے کہ جو کلام جس شاعر سے منسوب کر رہے ہیں وہ اس کے مزاج اور فکر سے ہم آہنگ بھی ہے کہ نہیں۔
مرحوم کے فزند اصغر مسرور احمد ملک کا کہنا ہے کہ اُن کے والد علامہ اقبالؒ سے کافی متاثر تھے۔انہوں نے کہا ’’میرے والد صاحب کئی مکاتبِ فکر سے وابستہ علماء کی تصانیف کا بھر پور مطالعہ کرتے تھے اور مطالعہ کا اتنا شوق تھا کہ کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کرپڑھ لیتے تھے‘‘۔مسرور احمد کے مطابق کئی باراُن کے والد مرحوم کو اُن کے دوستوں نے ایک شعری مجموعہ شائع کروانے کا مشورہ دیا لیکن وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ مجھے شہرت کی کوئی خواہش نہیں ہے۔مرحوم نے مختلف موضوعات کو بڑی ہی خوبصورتی سے اپنے اشعار میں قلم بند کیا ہے۔ مسرور احمد کے مطابق اُن کے والد نے کم و بیش 500غزلیں اور 100 کے قریب حمدونعت لکھے ہیں ۔اُن کے یہ چند اشعار ملاحظہ کریں:
کیسے قبائے لا اللہ کا چاک ہو رفو!
یہ بات چل رہی ہے مگر نمازیوں کے بیچ
اصحاب عزیمت کا کیسے ساتھ نبھائیں
یہ بات حل طلب ہے ابھی قاضیوں کے بیچ
مجھے مرحوم کا ایک شعر باربار یاد آرہا ہے جو انہوں نے نہ جانے کن حالات میں کہا تھا :
ہوچکا ہو جب گریباں چاک، داماں کس لئے
ہم نہ ہوں گے تو ہمارا،سازوساماں کس لئے
اردو زبان و ادب کے پہلے تنقید نگار مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی معرکتہ الآراء کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں ایک اچھے شعر میں تین چیزوں یعنی سادگی، جوش اور اصلیت کو ضروری قرار دیا تھا۔ یہ تینوں چیزیںمرحوم کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں۔
بعض لوگوں کا مقدر ہی ایسا ہوتا ہے کہ انہیں اپنی زندگی میں وہ مقام و مرتبہ نہیں مل سکتا جس کے وہ حقیقی حقدار ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں میں مزید کم نصیب وہ ہوتے ہیں جو مرنے کے بعد وقت کی دھول میں گم ہو جاتے ہیں اور مکمل گمنامی کی زندگی کے بعد بے نامی کے اندھیروں میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔ اردو ادب کے بے شمار ستارے ایسے ہیں جو نہ تو اپنی زندگی میں جگمگا سکے اور نہ ہی ان کے گزر جانے پر کسی نے ان کی یاد میں کوئی دیا روشن کیا۔اس ساری صورتحال میں ایک خوشخبری یہ ہے کہ مرحوم کے فرزندوں نے اپنے والد کے کلام کو ایک شکل دینے کی ٹھان لی ہے اور مسرور احمد کے بقول مستقبل قریب میں ایک شعری مجموعہ شائع ہورہا ہے ۔

تبصرہ کریں