فطرت کے خلاف جنگ بندی لازم

سردیوں کے سخت ترین مرحلے کے دوران ایک طویل خشک موسم کشمیر میں پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔بہت سے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں ،پانی کی قلت کا سامنا ہے اور رہاشی بستیوں میں ہی نہیں بلکہ جنگلات بھی آتشزدگی کی لپیٹ میں ہیں۔ موسمیاتی محکمہ کے مطابق دن کا درجہ حرارت تقریباً ایک ماہ سے زیادہ ہے، بعض اوقات کم از کم 6 ڈگری سیلشیس معمول سے زیادہ رہتا ہے۔اس دوران راتیںبہت زیادہ سرد ہو گئی ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ دسمبر میں تقریباً 80 فیصد بارش کی کمی دیکھی گئی ۔ اب چونکہ چلہ کلاں اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے لیکن گلمرگ اورپہلگام سمیت دیگر سیاحتی مقامات ریگستان کی شکل اختیارکرچکے ہیں۔سرینگر سمیت وادی کے اکثر علاقوں میں آئے روز نماز استسقاء اور دعائوں کا اہتمام کیا جارہا ہے کہ وادی میں برف وباراںکا سلسلہ شروع ہوجائے،ہمارے سیاحتی مقامات پھر سفید چادروں میں لپٹے ہوئے نظر آئیں اور جہلم بھی اپنی آن بان کے ساتھ رواں دواں ہو۔

خشک سالی کے نتیجے میں کئی مسائل جنم لے چکے ہیں ۔آبی ذخائر خشک ہونے سے وادی کے بیشتر علاقوں میں پینے کے پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں کسان پریشان ہیں۔ ندی نالوں اور دریائوں میں پانی کی سطح غیر معمولی حد تک کم ہونے سے ساڑھے 3ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھروں سے صرف600میگاواٹ بجلی حاصل ہورہی ہے اور محکمہ بجلی کے مطابق یہ صورتحال کٹوتی شیڈول کی ایک بڑی وجہ ہے۔اس پریشان کن صورتحال سے نہ صرف مختلف شعبہ ہائے زندگی متاثر ہورہے ہیں بلکہ غیر مقامی سیاحوں میںبھی مایوسی دیکھی جارہی ہے ۔
زراعت اور باغبانی محکموں کے ماہرین نے صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں یہ دونوں اہم شعبے بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔کئی مقامات پر دیکھا گیا کہ درختوں پر قبل از وقت شگوفے پھوٹ چکے ہیں جس سے میوہ کو نقصان ہوسکتا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر صورتحال یہی رہی تو دھان جیسی فصلیں اگانے کیلئے کٹھن مشکلات درپیش ہونگے۔
ہر موسم کی ایک خوبصورتی اور اہمیت ہوتی ہے۔ ہر موسم اپنے اندر ایک جاذبیت اور انفرادیت رکھتا ہے۔ہرایک موسم کے تقاضے جدا جدا ہوتے ہیںاور موسم کی مناسبت سے انسانی بدن کی فطری،طبعی اور مادی ضروریات بھی بدلتی رہتی ہیں۔خوراک ، لباس، طرزِ رہن و سہن اور بود و باش کے تقاضے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ سردی کے موسم میں ہم مرغن غذائیں ،گرم لباس اور قدرے زیادہ گرمی کے خواہاں ہوتے ہیںلیکن آجکل دن کو دھوپ اورراتیںزیادہ سرد ہونے کی وجہ سے انسانی جسم کو مختلف پیچیدگیوں کا سامنا ہے ۔نزلہ،زکام اور فلو جیسی بیماریاں لوگوں کو اپنی گرفت میں لے چکی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے انسانی صحت پر بڑے اثرات میں غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، وبائی امراض کا پھیلاؤ، سیلاب، گرمی سردی کی شدت میں اضافہ ہونا، موسم کے دورانیوں کا طویل ہونا ، برف کا پگھلنا اور خشک سالی کو مانا جاتا ہے۔
دنیا کو اس وقت جہاں کئی مسائل کا سامنا ہے وہیں ایک بڑا مسئلہ موسمیاتی تبدیلی کا ہے جو اس وقت بہت تیزی سے دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کو ماہرین اندرونی اور بیرونی عوامل قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح پر خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے اوراگر صورتحال یہی رہی تو آنے والے دور میں یہ دنیا کیلئے ایک بڑا خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر زمین پر اور زمین پر رہنے والی مخلوقات پر ہو رہا ہے۔اسی لئے عالمی برادری موسمی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے لاحق طویل المدتی خطرات بھانپ چکی ہے۔ ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ اور برطانیہ کے سابق چیف سائنٹفک ایڈوائزر ڈیوڈ کنگ ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ’ارتھ ڈے‘ کے ایک موقع پر اپنے پیغام میں خبردار کیا کہ’حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دس لاکھ انواع معدومیت کے دہانے پر ہیں‘۔ انہوں نے دنیا سے کہا کہ’فطرت کے خلاف یہ مسلسل اور غیرمعقول جنگ‘ بند کی جائے۔
دنیا کی سلامتی کو درپیش خطرات میں موسمی تبدیلی بڑے خطرے کے طور پر ابھری ہے۔ایک جریدے’سائنس ‘ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی بڑے خطرات کو جنم دے چکی ہے جس میں بعض جانوروں کی نسلوں کی معدومیت،زمین کے استعمال میں تبدیلی اورنامیاتی کھادوں کے باعث پید اہونے والی آلودگی شامل ہے اوران عوامل سے انسانیت خطرے کے زون میں داخل ہو چکی ہے۔
کہتے ہیں انسانوں کو دو چیزیں متحد کر دیتی ہیں، ایک مشترکہ مفاد اور دوسری مشترکہ خوف لیکن اگر ان دونوں چیزوں سے بھی انسان متحد نہ ہوں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض انسانوں کی نظر میں خوف اور مفاد کی تشریح مختلف ہو۔ جیسے 2019 میں عالمی سطح پر نمودار ہونے والے کورونا وائرس کو سبھی نے اپنے لیے خطرہ اور اس سے بچاؤ کو فائدہ تسلیم کیا۔اسی طرح طاعون، پولیو اور اس جیسے دوسرے جان لیوا امراض کے حوالے سے ابتدائی طور پر اس سے نظریں چرانے کے بعد جب اس کی ہولناکی کو براہِ راست اپنے دروازوں پر دستک دیتے ہوئے دیکھا تو سبھی اسے تسلیم کرتے ہوئے اس کے خاتمے کیلئے متحد ہو گئے۔
وقت کا ہوائی گھوڑالمحوں کے دوش پر اپنی مخصوص رفتار میں ہمیشہ محوِ پرواز رہتا ہے۔وقت کی یہ پرواز دن کو رات،رات کو دن،گرمی کو سردی،سردی کو گرمی،بہار کو خزاں اور خزاں کو بہار کے رنگوں میں تبدیل کرتی رہتی ہے لیکن دور اندیشی انسانوں کو عطا کی جانے والی ایک ایسی صفت ہے، جس کے استعمال سے آنے والی مشکلات کا اندازہ اور اس سے بچاؤ یا اس کی شدت کو کم کرنے کی تاویل کی جا سکتی ہے۔ کئی برسوں سے دنیا بھر کے سائنسدان گلوبل وارمنگ یا ماحولیاتی تپش کے حوالے سے لوگوں کو خبردار کر رہے ہیںلیکن حیرت انگیز طور پر لوگوں نے ابھی تک اسے مشترکہ خطرہ اور اس سے بچاؤ کو اپنے لیے مشترکہ فائدہ تسلیم نہیں کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے ممالک نے انفرادی طور پر اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کے اسباب میں کمی کیلئے اپنے لوگوں میں آگاہی اور ملکی قوانین میں تبدیلیوں کا آغاز کر دیا ہے۔بدقسمتی سے جموں کشمیر بالخصوص ہماری وادی میں اس صورتحال کو عوامی یا انتظامی سطح پر ابھی تک سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
برطانیہ کی ایک معروف کمپنی یونی لیور کے سابق سی ای او پال پولمین کہتے ہیں’ ’موسمیاتی تبدیلیوں کو بعض اوقات ہم موسم میں ہونے والی تبدیلیاں سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ درحقیقت یہ ہمارے طرزِ زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جسے ہمیں نہ صرف پہلے سمجھنا اور اس کے بعد کرئہ ارض پر ہونے والے مضر اثرات سے بچنے کی تدابیر کرنی ہیں‘‘۔
یعنی اگر ہم نے اپنی پرانی روش کو ترک نہ کیا اورجنگلات کے بے دریغ کٹائو سے باز نہیں آئے تو اللہ نہ کرے ہمیں بھی مختلف آفات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہی وہ خطرے کی گھنٹی ہے جو عالمگیر سطح پر مستقل بجے جا رہی ہے ۔بس ہمیںاپنے کانوں میں پڑی روئی نکال کر اس گھنٹی کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔

تبصرہ کریں