سیلاب کے دو ماہ بعد بھی رسوئی گیس کی ہوم ڈیلوری معدوم

28/10/2014
cylinderحالیہ سیلاب کے بعد وادی میں بالعموم اور سرینگر ضلع میں بالخصوص لوگوں کو جن مسائل کا سامنا ہے،اْن میں رسوئی گیس کی ہوم ڈیلیوری سرفہرست ہے۔بیشتر علاقوں میں گیس سپلائی کرنے والی ایجنسیاں ہوم ڈیلیوری سے متعلق قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑارہی ہیں۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ہوم ڈیلیوری ایک ناکارہ نظام ثابت ہورہا ہے کیونکہ لوگوں کوگیس کی حصول کیلئے ہفتوں تک انتظار کرتا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں انتظامیہ کی جانب سے سرد مہری دکھائے جانے پر عوامی سطح پر زبردست ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے۔

Read the rest of this entry »


تپ دق کے مریض اللہ کے رحم وکرم پر

26/10/2014

ایک ایسے وقت پر جب پوری دنیا میں تپ دق (ٹی بی)کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے، جموں وکشمیر میں گذشتہ پانچ روز سے اس مرض میں مبتلا مریض اللہ کے رحم وکرم پر ہیں۔اِن بیماروں کی دیکھ بال اور دوائیاں پہنچانے والے ملازم ہڑتال پر ہیں ۔ان عارضی ملازمین کے بقول وہ پچھلے9ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر میں10ہزار افرادتپ دق کے مرض میں مبتلا ہیں،جن میں سے150 افراد ٹی بی کے علاج کی ادویات سے مزاحمت (Multi Drug Resistent ) رکھتے ہیں یعنی جس میں مریض کو ٹی بی کے عام طریقہ علاج سے ہٹ کے طویل، پیچیدہ اور مہنگا علاج مہیا کرنا پڑتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ MDRٹی بی کے شکار افراد کو 24سے27ماہ تک کسی وقفے کے بغیر دوائیاں جاری رکھنی پڑتی ہیں۔یاد رہے کہ نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام اور عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی کے علاج کے لیے DOTS طریقہ علاج وضع کیا ہے ، جس میں مرض کی تشخیص ہو جانے کے بعد کسی ذمے دار فرد کی زیر نگرانی ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیاں بغیر کسی وقفے کے مسلسل 6سے9 ماہ تک جاری رکھنی پڑتی ہیں اور MDR یاXDR ٹی بی کی صورت میں 24سے 27ماہ تک کسی وقفے کے بغیر دوائیاں جاری رکھنی ہوتی ہیں ۔واضح رہے کہ MDR ٹی بی میں مریض پر پہلے درجے کی ادویات کا بالکل اثر نہیں ہوتاجبکہ XDR ٹی بی اس کا آخری درجہ ہوتاہے۔اگر مریض ابتدائی علاج میں تساہلی یا لا پر واہی کا مظاہرہ کرے اور ادویات کے باقاعدہ استعمال کے ساتھ حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نہیں کرتا تو پھر اس میں ٹی بی کی دوسری قسم کی افزائش ہو جاتی ہے۔ یہ بات قابل ذخر ہے کہ دنیا بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں تپ دق کے باعث ہوئی ہیں۔ صرف 2012ء کے دوران دنیا بھر میں 86 لاکھ افراد اس مہلک بیماری سے متاثر ہوئے اور ان میں سے 13 لاکھ افراد موت کا شکار ہو گئے۔ہندوستان میں ہر تین منٹوں کے دوران2افراد تپ دق سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ Read the rest of this entry »


مودی کی آمد پر وادی میں ہڑتال

23/10/2014

ایک طرف جہاں آج برصغیر میں روشنیوں کا تہوار منایا گیا وہیں کشمیر کے سیلاب زدہ منظرنامے پر ہڑتال کا راج رہا۔ہڑتال کی کال حریت (گ) سمیت کئی دیگر علیحدگی پسند تنظیموں نے دی تھی،جس کا خاطر خواہ اثر رہا۔علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ جب حالیہ سیلاب سے یہاں لوگ مررہے تھے تو اس وقت نریندر مودی کو کشمیری یاد کیوں نہیں آئے۔وزیرِ اعظم کی حیثیت سے یہ دوسری مرتبہ اُن کا دورئہ کشمیر ہے۔ دیوالی کے پیش نظر اگرچہ آج سرکاری ادارے چھٹی پر تھے تاہم سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات اور ہڑتال کے نتیجے میں معمول کی زندگی تھم کر رہ گئی ۔ Read the rest of this entry »


سکولوں کی تباہی طلباء پر بھاری

23/10/2014

حالیہ تباہ کن سیلاب نے جہاں کشمیری سماج کے تانے بانے کوہلاکررکھ دیا وہیں سینکڑوں سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو بھی نقصان پہنچایا۔محکمہ تعلیم نے اسکولوں میں درس تدریس کا عمل شروع کیا تاہم سیلاب کی نذر ہونے والے سکولوں میںبچے کھلے آسمان کے نیچے تھرماکول یا ٹاٹ پر بیٹھے ہیں تاہم حکام کو معلوم بھی نہیں کہ قوم کا مستقبل حصول تعلیم کے نام کھلے آسمان تلے گرد آلود ہورہا ہے۔ Read the rest of this entry »


نجی کتب خانے۔۔۔۔عظیم نقصان جسکی تلافی شائد ہی ممکن ہوپائے

19/10/2014
حالیہ تباہ کن سیلاب نے وادی کشمیر بالخصوص سرینگر اور دیگر قصبہ جات کو جس شدت کے ساتھ تہہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے ،وہ آنے والے برسوں میں شائد ہی لوگوں کے حافظے سے محو ہو۔طوفان کی تباہی کے شکار نجی املاک اور کاروباری اداروں کو واپس اپنی ڈگر پر لانے کیلئے اگرچہ ایک اچھا خاصا وقت درکار ہوگا تاہم جنوبی کشمیر اور سرینگرشہر میں متعدد نجی کتب خانوں میں ہوئی تباہی کا ازالہ شائد ہی ہوسکے کیونکہ ان کتب خانوں میں موجود کئی نادر اور نایاب کتابیں اْن اعصاب شکن باقایات کا حصہ بن چکی ہیں جو سیلاب نے اپنے پیچھے چھوڑدئے ہیں۔کتب بینی کے شوقین لوگوں کو اس بات کا صدمہ ہے کہ علم و دانش کے ان تباہ شدہ ذخیروں میں ہماری ثقافت،مذہب اور سماجی ارتقاء پذیری کے حوالے سے ایسی تفصیلات موجود تھیں جو آنے والی نسلوں کی اْٹھان اور ارتقاء کیلئے بنیاد فراہم کرتی ہیں لیکن آج یہ سب کچھ تخت و تاراج ہوچکا ہے۔

Read the rest of this entry »