بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

قلم سے منہ موڑے کئی دن گزرے لیکن اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اپنے بچپن کے دوست عاشق حسین ملک کی جدائی کی داستان تحریر کرنے کی جرأت ہی نہیں ہورہی ہے ۔قلم اپنی روانی کھو چکا ہے۔میں نے بہت سوچنے کے بعد ہمت جٹائی ۔افسوس ہوا۔۔۔ کیا باقی دوستوں کی طرح میرا دوست بھی (جسے میں اپنا آئینہ سمجھتا تھا) خراج عقیدت کا محتاج ہے؟حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں کئی رشتے ملا کرتے ہیں مگر ایک انسانی رشتہ ایسا ہے جس میں ’زندگی‘ ملاکرتی ہے ،وہ رشتہ ’دوستی ‘ کاہے۔ زندگی میں ہر رشتے کی اپنی ضرورت اور اہمیت ہوتی ہے جس طرح پانی کی پیاس دنیا کی کسی نعمت سے پوری نہیں کی جا سکتی اسی طرح دوستوں کی کمی کو مال و دولت کی آسائشوں یا دیگر رشتوںسے پورا نہیں کیا جا سکتا ہے۔

انسان کا دل فطری طور پر خوشی اور اطمینان کے جذبے پہ پیدا کیا گیا ہے۔ دوست وہ رشتہ ہے جس کے سامنے اٹھنے، بیٹھنے، ہنسنے، بولنے کے اصولوں کا حساب کتاب نہیں رکھنا پڑتا۔ کب بولنا اور کتنا بولنا ہے ،کمزوریوں کو کیسے نہیں بتانا ہے، آنسوئوں کی نمی کو بہانوں میں کیسے چھپانا ہے جیسے مشکل اور تھکا دینے والے عمل سے گزرنا نہیں پڑتا۔ دوستوں کے ایک مصافحہ پر اپنے دل کی ڈور ان کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں، آنکھوں کے اشاروں سے الجھن سما دیتے ہیں اور ایک بار گلے لگتے ہی تمام دنیا سے چھپائے ہوئے غم ’الف تا ے‘ سنادیتے ہیں۔یہ سب نعمتیںجو دوستی میں ملتی ہیں دل کو سمندر کا سا سکوت اور صاف نیلگوں کی وسعت عطا کرتی ہیں ۔ہمیں دنیا سے لڑنے کیلئے نئے سرے سے تیار کرتی ہے ۔
یوں تو کسی بھی زمانے میں دوستوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں رہالیکن موجودہ دور میں جب افراتفری ، انتشار، خلفشار ، باہمی تنازعات کے باعث خونی رشتوں کی قدریں کم ہورہی ہیں اور دولت و شہرت رشتوں کا معیار بنتے جارہے ہیں ، ان گھمبیر حالات نے دوستی کے رشتے کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بلاشبہ نیک و مخلص دوست کسی نعمت سے کم نہیں ، کیونکہ نیک سیرت اور مخلص دوست کے مفید مشوروں، مدد اور معاونت سے زندگی میں آسانیاں اور سہولتیںآجاتی ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی،ناگواری کی کیفیت، مایوسی، گھریلو رنجشیں، مالی تنگد ستی، فکرمعاش ، افلاس، احساس محرومی اور معاشرتی ناہمواریاں تیزی سے لو گوں میں ذہنی دبائو اور افسردگی کا باعث بن رہی ہیں، ان گھمبیر حالات میں اگر کسی مخلص دوست کی رفاقت میسر ہوتو کٹھن سے کٹھن راستہ بھی آسان معلوم ہوتا ہے ، دوستی زندگی کے مایوس کن لمحوں میں جینے کی امید دیتی ہے۔
زندگی میں کئی لوگ ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے وجود کی چھاپ ہمیشہ ہمارے دلوں پر قائم رہتی ہے۔ ایسا ہی میرا دوست عاشق حسین ملک تھا۔ فروری 2023میں موصوف ایک مہلک مرض کا شکار ہوگیا اورصورہ میڈیکل انسٹچوٹ میں علاج و معالجہ شروع کیا۔ کیمو تھراپی کے باوجود اس کی صحت مزید بگڑتی چلی گئی اور دائیں آنکھ بھی متاثر ہوگئی ۔اس صورتحال نے میرے دوست کو بے چین کردیا اور وہ بہتر علاج کی غرض سے 14ستمبر2023چندھی گڑھ روانہ ہوااور’پی جی آئی ‘میں داخل ہوا۔جہاں اس کے دونوں گردوں نے کام کرنا چھوڑدیا اور ڈاکٹروں نے فوری طور ڈائلاسز کو لازمی قرار دیا۔ہائے رے قسمت ! پی جی آئی میں ابھی علاج شروع ہی ہواتھا کہ جس وارڈ میں میرا دوست زیر علاج تھا وہ آتشزدگی کی واردات میں تباہ ہوگیااورسبھی مریضوں کو شہر کے نزدیکی ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ۔بہرحال میرے دوست کیلئے سرینگر واپسی اورSKIMSمیں داخلہ لازمی بن گیا۔سرینگر ائرپورٹ پر13اکتوبرکو عاشق حسین نے اپنی دونوںبیٹیوں کو دیکھ کرجس ہمت کا مظاہرہ کیا وہ قابل دید تھا ۔سکمز میں علاج و معالجہ کے دوران 20اکتوبر کوموصوف داعیٔ اجل کولبیک کہہ گئے۔اپنے بچپن کے اس ساتھی کی جدائی کا غم اور مفارقت کا داغ میرے لئے ایک المناک سانحہ بن کر دماغ پر نقش ہوگیا ہے ۔میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ موصوف اتنا جلدی اپنا سفر سمیٹ لیں گے لیکن مقدر میں شاید یہی لکھا تھا کہ وہ اس دنیا سے پاکیزہ اور عفیف جنت کی طرف چلے جائیں جہاں جنت کی حوریں ان کا استقبال کررہی ہوں۔ عاشق حسین کے سر سے والدین کا سایہ بھی بچپن میں ہی اٹھ چکا تھا۔ماں جیسی عظیم نعمت کھونے کے بعد مرحوم نوجوانی میں ہی باپ کی شفقت سے بھی محروم ہوچکا تھا۔وہ مرحوم سیف الدین ملک المعروف پردیسی صاحب کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔پردیسی صاحب بھی مہلک مرض کا شکارہوکر1995میںانتقال کرگئے تھے۔مرحوم سیف الدین انتہائی مہمان نواز ،ملنسار اورشریف النفس انسان تھے ۔
عاشق میرا بہت مخلص دوست تھا۔ اس کے ساتھ بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔ اس کی بہت ساری باتیں میرے دل پر نقش ہیں۔ اس کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرنے کے بعد بھی ایسا لگتا تھا کہ ملاقات ادھوری ہے۔ اس کا تعلق دہرمنہ بڈگام کے ایک متوسط گھرانے سے تھا۔وہ پاکیزہ اخلاق،نیک صفت ،لائق و قابل ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ ملنسار،مہمان نوازاور بردباری کے اعلیٰ اوصاف سے متصف تھا۔ہم میں سے کسی نے شائد یہ تصور نہیں کیا تھا وہ اس قدر جلد ہمیں داغِ مفارقت دے جائیں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سخت آزمائش سے نہ پاؤں تلے زمین باقی ہے اور نہ سر کے اوپر آسمان۔ دل و دماغ کے لیے یہ فیصلہ مشکل ہوگیا ہے کہ اہل و عیال ایک جواں سال لاڈلے کو سپرد خاک کریں یا خود زندہ درگور ہوجائیں،لیکن یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور ہم سب کو ایک نہ ایک دن اللہ کی طرف ہی جانا ہے اور اسی نے اپنی حکمت ومصلحت سے میرے جوان دوست کو ہم سے جدا کردیا ۔
یہ محض آخرت کی زندگی پر ایمان ویقین کا کرشمہ ہے کہ آدمی تلخ سے تلخ گھونٹ پی جاتا ہے اور تسلیم ورضا اور صبر واحتساب کا دامن ہاتھوں سے نہیں چھوڑتا اور یہ یقین کرلیتا ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جو مصیبت اور حادثہ پیش آتا ہے وہ پہلے سے نوشتہ تقدیر میں محفوظ ہوتا ہے، موت وقت سے پہلے نہیں آتی اور نہ اس کو اس کے وقت سے ٹالا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بات کا فیصلہ کرلے تو اللہ کے علاوہ کوئی اسے ٹال نہیں سکتا، ساری کائنات مل کر بھی اللہ کا اگر فیصلہ نہ ہو تو ایک ذرہ کا فائدہ پہنچا سکتی ہے، نہ کسی کا ایک بال بیکا کرسکتی ہے، آخرت کی زندگی دنیا سے بہتر ہے، جنت کی نعمتیں دائمی اور ابدی ہیں۔
عربی کا ایک مقولہ ہے’اذا کانت الانفاس بالعدد، ولیس لہا مدد، فما اسرع ما ینفد(جب زندگی بھر کی سانسیں گنی چنی ہیں اور ان میں اضافہ کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے توپھر ان کو گزرتے ہوئے دیرہی کتنی لگتی ہے) یقیناً یہ بات صد فی صد درست ہے کہ ہر جاندار کے صبح و شام، ماہ وسال گنے چنے ہیں، بلکہ انسان کی سند پیدائش ہی اس کی وفات کا گوشوارہ بھی ہے، جس پر اس کی مقرر شدہ زندگی کا ہر لمحہ درج ہوتا رہتا ہے اور ہر دن زندگی کا ایک ایک صفحہ اْلٹتا رہتا ہے۔ مولانا سیدمناظر احسن گیلانیؒ کے بقول ’’ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جسے زندگی کا روگ لگا ہواور پھر وہ نہ مرا ہو، جس کو یہ لگ گیا اس کو بہرحال مرنا ہی ہے‘‘۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر رخسار آنسوؤں سے شرابور ہیں، زبان جواب دے گئی ہے، گویا حال دل یہ کہہ رہا ہے ’’اگر گویم زباں سوزد نہ گویم مغز استخواں سوزد‘‘۔ایسے جواں ساتھی کی موت پر صبر ورضا کا دامن تھامے رکھنا بھی اللہ غفور ورحیم کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
دل میں حسرت اس غنچہ کی ضرور ہے جو بن کھلا مرجھا گیا لیکن اس کی موت نے یقیناً ایک پیغام دیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور وقت مقررہ کے بعد ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں ملتی، اس لیے اس وقت سے پہلے کہ ہمارا نامہ اعمال بھی بند ہوجائے اور موت کسی بہانے سے ہمیں بھی اپنے شکنجے میں لے لے ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ہماری دعا یہی ہے کہ اے اللہ! ہمیں ایسی آزمائشوں میں نہ ڈال جن کا تحمل ہم نہ کرسکتے ہوں اور ہمیں دنیا میں عافیت اور آخرت میں عفو سے بہرہ ور فرما اورجانے والے کو فردوس بریں میں جگہ دے۔ اسے اس کے ماں باپ کیلئے ذخیرہ آخرت کی حیثیت سے قبول فرما اور پورے اہل خانہ اور متعلقین کوصبرعطا فرما۔

تبصرہ کریں