کپوارہ کی معیشت میں اخروٹ اہمیت کا حامل

کپوارہ نے 2023میں کشمیر کا اخروٹ ضلع ہونے کا اعزاز حاصل کیاہے کیونکہ ضلع میں ایک سال کی پیداوار 37,010 میٹرک ٹن رہی۔ یہ ضلع اخروٹ کی صنعت میںمسلسل معاشی اہمیت کی وجہ سے توجہ حاصل کر رہا ہے۔ باغبانی کشمیر کے دیہی علاقوں کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور کپوارہ میں چار لاکھ سے زیادہ لوگ باغبانی کی صنعت سے وابستہ ہیں اور اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔کپوارہ میںاخروٹ کے باغات بہت سے لوگوں کیلئے ذریعہ معاش رہے ہیں، جو خطے کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیری اخروٹ کے اعلیٰ معیار اور ذائقے کی وجہ سے ہمیشہ مانگ رہی ہے ۔

بھارت میں اخروٹ کی پیداوار کا 98 فیصد جموں و کشمیر سے آتا ہے۔ 89 ہزار ہیکٹر اراضی پر کاشت ہونے والے اخروٹ کی سالانہ پیداوار تقریباً 2.66 لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ 2021کے اعدادوشمار کے مطابق پوری دنیا میں اخروٹ کی پیداوار 3.5ملین ٹن تھی۔جموں کشمیر میں اننت ناگ،پلوامہ،شوپیاں، کپوارہ،بارہمولہ، بڈگام اور سرینگر اضلاع میں اخروٹ پائے جاتے ہیں۔ان اضلاع میں شمالی ضلع کپوارہ سرفہرست ہے۔کپوارہ ضلع میں سب سے زیادہ اخروٹ راجوار،ولگام،کرالہ گنڈ،اشہ پورہ، لنگیٹ ،ماور،سوگام، ترہگام ،کرالپورہ،مژھل،کیرن، ٹنگڈار ، ٹیٹوال اور قاضی آباد میں پائے جاتے ہیں۔ان علاقوں کے لوگ اخروٹ کی کاشت سے اچھا خاصامعاش کمارہے ہیں۔ ضلع میں 8,829 ہیکٹر رقبہ اخروٹ کی کاشت کیلئے وقف ہے، جس سے2023میں 37,010.299 میٹرک ٹن اخروٹ کی پیداوار ہوئی، جو وادی کے کسی بھی ضلع میں سب سے زیادہ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق 37,010.299 میٹرک ٹن اخروٹ میں ہندوارہ میں 1519 میٹرک ٹین، راجوار میں 2112 میٹرک ٹن، ولگام میں 1954 میٹرک ٹن، اشہ پورہ میں 1140 میٹرک ٹن، کرالہ گنڈ میں 1208 میٹرک ٹن، لنگیٹ میں 536 میٹرک ٹن،ماور میں1520،درگمولہ میں2664میٹرک ٹن، کپوارہ میں 5099 میٹرک ٹن، سوگام میں 4546میٹرک ٹن، ڈون واری میں 3631 میٹرک ٹن، ترہگام میں 2956، کرالپورہ میں 3552 میٹرک ٹن، ٹنگڈار میں 2632 اورٹیٹوال میں 1997میٹرک ٹن ہوتے ہیں۔ یہ مالی سال2023-24 کیلئے اخروٹ کی پیداوار کا تخمینہ ہے۔
کپوارہ کے ایک اخروٹ ڈیلر لالہ خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ضلع اخروٹ کی کاشت کا ایک مرکز بن گیا ہے جس کیلئے کسان پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے جدید تکنیک اپنا رہے ہیں ‘‘۔انہوں نے کہا’’کپوارہ میں پیدا ہونے والے اخروٹ اپنے بھرپور ذائقے اور مخصوص ساخت کیلئے جانے جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا’’فی اوقت اخروٹ فی کلو کی اوسط قیمت 374 روپئے سے600تک ہے ‘‘۔خان نے اخروٹ درآمد کرنے کے سلسلہ کوتاہم کشمیر ی صنعت کیلئے نقصان دہ قرار دیا ۔اخروٹ کے کاروبار سے وابستہ ایک تاجربشیر احمدنے بتایا کہ کپوارہ کے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے کیونکہ کشمیری اخروٹ کی عالمی سطح پر پذیرائی بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا ’’کپوارہ کی اخروٹ صنعت کی کامیابی میں سازگار آب و ہوا اور مٹی کے حالات اہم عوامل ہیں۔
چیف ہارٹیکلچر آفیسر کپوارہ منیر احمد وانی نے باغبانی محکمہ کی جانب سے متنوع اقدامات پر زور دیا۔انہوں نے کہا’’اخروٹ کی جدید نرسریوں کے قیام نے ضلع کے کسانوں میں اعتماد پیدا کرنے اور پیداوار بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا’’معاشی خوشحالی کا ذریعہ ہونے کے ناطے، اخروٹ کے باغات خطے کے ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘‘۔وانی کا کہنا ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ روایتی اخروٹ کے درختوں کی جگہ نئے درخت لگائیں تاکہ زیادہ مالی فائدہ ہو۔انہوں نے کہا کہ محکمہ نے امسال ضلع میں اخروٹ کی پیداوار کو دوگنا کرنے کا ٹارگیٹ مقرر کیا ہے۔
کپوارہ کے کسانوں کو منڈی تک رسائی، نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچہ اور پائیدار کاشتکاری کے طریقوں کی ضرورت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ان خدشات کو دور کرنے کیلئے کوششیں جاری ہیں، حکومتی اقدامات اور مقامی کوآپریٹیو مل کر اخروٹ کی صنعت کی ترقی میں مدد کیلئے کام کر رہے ہیں۔کشمیر کے اخروٹ ضلع میں کپوارہ کی معاشی خوشحالی اور ماحولیاتی بہبود دونوں کو بڑھانے میں پائیدار زراعت کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔ چونکہ دنیا کشمیری اخروٹ کی قدر کو تسلیم کر رہی ہے۔ اس خوبصورت ضلع کیلئے مستقبل امید افزا نظر آ رہا ہے۔
امتیاز احمد بٹ نامی ایک تاجرنے کہا ’’اگر قیتیں صحیح مل جائیں اوربیرونی منڈیوں تک رسائی آسان بنائی جائے تو یہ صنعت ضلع کے نوجوانوںکیلئے بہتر روزگار کاذریعہ بن سکتی ہے‘‘۔اس سلسلے میں سی ایچ او وانی کا کہنا ہے’’ بے روزگار پڑھے لکھے نوجوان اپنی روزی روٹی کمانے کی راہ ہموار کرنے کیلئے محکمہ سے استفادہ کرسکتے ہیں، جہاں انہیں ہر ممکن تعاون فراہم ہوسکتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا’’ہم نے گلورہ ہندوارہ، چوگل ہندوارہ اور چندیگام لولاب میں اعلیٰ کثافت والی اخروٹ کی نرسریاں قائم کی ہیںاورمارچ میں اخروٹ کے نئے پودے فروخت کر نے کے قابل ہونگے‘‘۔

تبصرہ کریں