نوکری سے خود روز گاری تک

کامیابی انسان کی خواہش پر نہیں بلکہ اس کی محنت پرمنحصر ہوتی ہے۔ پھر وہ محنت کسی گھر کو بہتر طریقے سے چلانے کیلئے یا پھر کسی کاروبار کو کھڑا کرنے کیلئے کی جائے ۔ انسان کی محنت ہی اس کی کامیابی کی کہانی لکھتی ہے ورنہ اچھے سے اچھا آئیڈیا بھی پھیکا پڑ جاتا ہے۔یہ صرف باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ سرینگر شہر سے تعلق رکھنے والی اسماء بٹ نامی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی نے ان باتوں کو عملی جامہ پہنایا ہے۔35سالہ اسماء نے2016 میں بڈگام ضلع کے خانصاحب علاقے میں اپنے کاروباری سفر کا آغاز کرکے ایک چھوٹا شیپ فارم شروع کیا۔یہ فیصلہ اس نوجوان لڑکی نے اُس وقت لیا جب وہ یونیورسٹی سے سی ایل ایل بی اورایل ایل ایم (criminology) کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بحیثیت standing counsel اپنا روزگار کمارہی تھیں۔

اسماء نے ’ شیپ‘ فارم قائم کرکے نہ صرف اپنے لئے روزگار کا بندوبست کیا بلکہ کم سے کم 12 افراد کا روز گار مسلسل اس فارم سے جڑا ہوا ہے۔اپنی کاروباری زندگی شروع کرنے کے سلسلے میں اسماء نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’کشمیر یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور ایل ایل ایل ایم کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد میں نے بحیثیت standing counsel دس سال وکالت کی لیکن میرا دل مطمئن نہیں تھا،میرے دل میں ایک عجیب ہلچل تھی،میں کسی کے تحت کام نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ کچھ بڑا اور بہتر کرنے کا خیال دل ودماغ میں گونجتا رہتا تھا‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس دوران یہاں امن و قانون کی صورتحال پیدا ہوگئی اور وادی میں گوشت کی قلت پیدا ہوگئی۔انہوں نے مزید کہا ’’ چونکہ گوشت کشمیری لوگوں کی پہلی پسند ہے۔میرے دل میں اچانک خیال آیا کیوں نہ میں شیپ فارم شروع کرلوں ۔قدرت کو یہی منظور تھا اور میں نے اپنے اس خیال کوعملی جامہ پہنانے کیلئے خانصاحب بڈگام کا سفر کیا جہاں میں نے ایک پہاڑی (کاترش وڈر)پر ایک کنال سے کم زمین خرید لی جہاں پانی ، بجلی اور سڑک جیسی کوئی سہولت نہیں تھی ‘‘۔اسماء کا کہنا ہے ’’شیپ فارم شروع کرنے سے پہلے اس قطعہ اراضی کو ہموار کرنے میں پاپڑ بیلنے پڑے تب جاکر یہ استعمال کے قابل بنا‘‘۔انہوں نے کہا ’’12بھیڑ بکریوں سے فارم میں کام کاج کیا۔پہلے پہل تو مشکلات بہت آئے کیونکہ کوئی تجربہ نہیں تھابلکہ میرے لئے تو اسلئے بھی زیادہ مسائل تھے کیونکہ میں شہر میں پلی بڑھی تھی اور کبھی کسی جانور کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا ‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’جوں جوں تجربہ بڑھتا گیا میرے ذہن میں یہ بات نقش کرنے لگی کہ میں ایک ایسے کاروبار کو شروع کرچکی ہوں جو ہمارے انبیاء ؑنے کیا ہے توہمت مزید بڑھ گئی‘‘۔ایک کنال پر12 بھیڑبکریوں سے شروعات کرنے والی اس لڑکی کے پاس اب نہ صرف200سے زائداعلیٰ اقسام کی بھیڑیں ہیں بلکہ 22کنال راضی بھی ہے جس کو انہوں نے greenwoodzکے نام سے ایک خوبصورت میوہ باغ کی شکل دی ہے جس میں سیب، انگور ،کیوی اورسٹرابیری جیسے پھل پائے جاتے ہیں اور شیپ فارم کو whitewoolzکا نام دیا ہے جس میں اب بھیڑیں ہی نہیں بلکہ مرغ،بطخ ،ہنس اور دیگر جانور بھی موجود ہیں۔انہوں نے کہا ’’ہم میوہ باغ میں کوئی کھاد نہیں دالتے ہیں بلکہ شیپ فارم سے جو ڈھنگ میسر ہوتا ہے اسے ہی کمپوسٹ میں تبدیل کرکے استعمال میں لاتے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’ہماری کوشش کی بدولت اس علاقے کی قیمت اب بڑھ گئی ہے جو کبھی بنجر ہوا کرتا تھا اور لوگوں نے یہاں مختلف کام شروع کردئے ہیں‘‘۔اسماء کے بقول وہ اس فارم کو ایک سیاحتی مقام کے بطور ترقی دینا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کیلئے ایک روزگار کا ذریعہ بنے۔ انہوں نے کہا’’ہمیں فقط اپنا روزگار ہی مدنظر نہیں بلکہ لوگوں کوروزگار فراہم کرنا ایک بڑا مقصد ہے‘‘۔اس شیپ فارم کی بدولت آج whitewoolzمیں 12افرادمستقل کام کرتے ہیں جبکہ روزانہ بنیادوں (ڈیلی ویجر)پر بھی کئی لوگ یہاں کام کرتے ہیںجن میں خواتین بھی شامل ہیں۔اسماء کے مطابق انیمل ہسبنڈری اور شیپ ہسبنڈری محکموں کے علاوہ جموں کشمیر بنک نے اس پروجیکٹ کو تقویت دینے میں ہمیشہ بھرپور تعاون دیا۔اسماء کا تعلیم یافتہ نوجوانوں سے مشورہ ہے کہ سرکاری نوکریوں کی تلاش میں اپنا وقت ضائع نہ کریں بلکہ ہمت ،محنت اور ایمانداری سے کام لیکر کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کرکے اپنے لئے اور دوسروں کیلئے روزگار کا ذریعہ بنیں۔

تبصرہ کریں