طالب علم10 سال سے لاپتہ

‘ میرے بیٹے کی خطا یہ تھی کہ اس کے چہرے پر داڑھی تھی’یہ الفاظ ہیں مغلی کے، جو پچھلے 10 سال سے اپنے بیٹے کی راہ تک رہی ہے۔ مغلی کا 23 سالہ بیٹا عاشق حسین ملک ساکنہ پیرباغ حیدر پورہ12ویں جماعت کا طالب علم تھا اور ہائرسکنڈری سکول جواہر نگر میں زیر تعلیم تھا ۔ اپنی روئیداد بیان کرتے ہوئے عاشق کے بڑے بھائی محمد کمال نے کہا ”23 اور24 مئی 1997 کی درمیانی رات کو20 گرینیڈرس جس کی قیادت کمانڈر اے اے ملک کررہے تھے اور ان کے ساتھ ایک نقاب پوش آدمی بھی تھا ، نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور عاشق کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گئے کہ محلہ کے ہی ایک اور نوجوان غلام قادر بٹ کا مکان دکھائے” ۔محمد کمال کا مزید کہنا ہے کہ” بٹ کو فوج پہلے ہی حراست میں لے چکی تھی اور اسکا گھر دکھانے کابہانہ کرکے وہ عاشق کو گاڑی میں دھکیل کر بھاگ گئے”۔محمد کمال نے بتایا کہ اگلے ہی دن وہ 20 گرینیڈرس کے کیمپ واقع گریند بڈگام پہنچ گئے لیکن وہاںفوج نے انہیں عاشق سے ملنے نہیں دیاجبکہ فوج نے یہ اعتراف کرلیا کہ عاشق اُن ہی کے پاس ہے۔ محمد کمال نے حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا ”اپنادکھڑا سنانے کیلئے ہم پولیس کے پاس گئے مگرپولیس چوکی ہمہامہ نے ایف آئی آر درج کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ایس پی بڈگام کے ہدایات ہیں کہ فوج کے خلاف کوئی شکایت درج نہ کریں ”۔ محمد کمال کے مطابق پانچ دن کے بعد غلام قادر بٹ کو رہا کیا گیا اور اذیتوں کی داستان سناتے ہوئے بٹ نے انہیں بتایا کہ پورے پانچ دن ان دونوں (عاشق اور بٹ) کو ننگا رکھا گیا اور شدید انٹروگیشن کیا گیا ۔ پانچویں دن کپڑے پہننے کی اجازت دیکر بٹ کو رہا کیا گیا ”۔ کسمپرسی کی دلخراش داستان سناتے ہوئے محمد کمال کہتے ہیں” ایک سال تک ہم متعلقہ فوجی کیمپ کی خاک چھانتے رہے یہاں تک کہ وہ کیمپ وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گیا”۔ عاشق کے لواحقین نے فوج تو فوج سیاست دانوں اور ذمہ داروں تک کا دروازہ کٹھکھٹایا مگر کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا۔ کمال نے کہا ”ہم متعلقہ ضلع کمشنر سے لیکر وزیر اعلیٰ تک درخواست لے کر پہنچے لیکن وہاں سے خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا ”۔عاشق کی عمر رسیدہ ماںمغلی کا کہنا ہے ” انٹروگیشن سنٹروں سے لے کر سب جیل ، سب جیل سے لے کرہرکسی جیل تک بیٹے کو ڈھونڈا لیکن کہیں کوئی اتہ پتہ نہیں ملا۔ یہاں تک کسی نے ایک بارافواہ پھیلائی کہ عاشق دلی کے تہاڑ جیل میں ہے، وہاں بھی پہنچے لیکن بے سود”۔ محمد کمال نے سٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشنSHRCکی ساخت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا ”کمیشن میں مقدمہ دائر کرنا فضول ہی ثابت ہوا کیونکہ گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد کمیشن نے فیصلہ سنانے کے بجائے اُنہیں یہ مشورہ دیا کہ کیس واپس لیکر معاوضہ لیجئے ”۔  محمد کمال کے بقول ایس ایچ آر سی نے انہیں یہ کہہ کر اور زیادہ مایوس کیا کہ کمیشن کو فوج کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ محمد کمال نے اپنی مایوسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ”کہ جب ہر جگہ سے خالی ہاتھ ہی لوٹے تو بعد میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یا اور20 گرینیڈرس اور کمانڈر اے اے ملک کے خلاف مقدمہ زیر نمبر 145/97دائر کیا۔ ہائی کورٹ نے سیشن جج بڈگام کو تحقیقات کرنے کیلئے حکم نامہ بھیجا ۔ سیشن جج بڈگام نے گواہوں کے بیانات بشمول بٹ کے قلمبند کئے اور پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا اور پولیس نے تب جاکے ایف آئی آرزیر نمبر 18/2005/342,365RPCمورخہ3فروری 2005کو درج کیا”۔  2007میں منظر پر عام پر آئے زیر حراست ہلاکتوں کے واقعات کے حوالہ سے محمد کمال نے اپنے اندر کے ڈر کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے کہا ” گاندر بل اور سمبل کے قبرستانوں سے بے گناہ کشمیریوں کی لاشیں نکالے جانے کے بعد ہماری پریشانیوں میں اور زیادہ اضافہ ہوگیاہے”۔

3 Responses to طالب علم10 سال سے لاپتہ

  1. محمداسد نے کہا:

    نہ جانے کب تک اس خوفناک ریاستی دہشت گردی کے الم ناک واقعات درج کیے جاتے رہیں گے۔ لیکن اقوام عالم ہے کہ اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

تبصرہ کریں