فورسز کے ہاتھوں قتل و غارت جاری

دوشیزہ سمیت مزید 4کشمیری جاں بحق
وادی میں فورسزکے ہاتھوں ایک خاتون اورطالب علم سمیت چار نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔ شہر سرینگر سمیت وادی بھر میں منگل کو اس وقت پھر تشدد کی لہر بھڑک اٹھی جب سرینگر کی نواحی بستی ٹینگہ پورہ میں فورسز کے ہاتھوں مبینہ طورگیارہویں جماعت کے ایک طالب علم کو فورسز نے زیر حراست جاں بحق کردیا۔زبردست احتجاج کے دوران اندھا دھند فائرنگ سے ایک جواں سال دوشیزہ سمیت4نوجوان جاں بحق ہو گئے ۔انتظامیہ نے حالات پر قابو پانے کیلئے ایک بار پھر کرفیو نافذ کر دیا ہے اور دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ محض 18گھنٹوں کے وقفے میں 4افراد کی ہلاکت کے خلاف وادی کے طول و ارض میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور وادی کے تقریباً سبھی علاقوں میں لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگے جبکہ سرینگر میں جاں بحق افراد کی لاشوں کو لیکر جلوس نکالے گئے جنہیں منتشر کرنے کیلئے پولیس اور فورسز نے ایک مرتبہ پھر طاقت کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہوئے زور دار ٹیر گیس شیلنگ کے ساتھ ساتھ مظاہرین پر گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں سو سے زائدافراد زخمی ہوگئے جن میں سے متعدد افراد کو گولیا ں لگی ہیں جبکہ کئی ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ۔اس دوران مشتعل مظاہرین نے بٹہ مالو میں آرمڈ پولیس کے کمپنی ہیڈ کوارٹراور گوگجی باغ میںایک سینئر آفیسر کی سرکاری گاڑی کو نذر آتش کر دیا جبکہ ممبر اسمبلی بٹہ مالو اور نیشنل کانفرنس لیڈرعرفان شاہ کی رہائش گاہ کی زبردست توڑ پھوڑ کی اور کئی مقامات پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سرینگر بارہمولہ شاہراہ پر واقع ٹینگہ پورہ اور گنگہ بْگ بستیوں کے چند نوجوان سوموار کی شام سڑک پر پتھراؤ کررہے تھے اور اس دوران سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف )نے ان کا تعاقب کیا اور چند لڑکوں کو گرفتار کیا۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ نیم فوجی دستوں نے پوچھ تاچھ کے بعد سترہ سالہ مظفر احمد کے بغیر سب کو چھوڑ دیا۔ مقامی لوگوں نے مزید بتایا کہ ‘نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کے بعد ہم نے رات بھر سڑک پر احتجاج کیااور اس دوران سینئر پولیس افسران بھی موقعہ پر آئے تاہم انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیاجس کے بعدہم رات بھر سڑک پر ہی احتجاج کرتے رہے’۔مقامی لوگوںکا کہنا ہے کہ ‘ منگل کی صبح فورسز اہلکار مظفر کی لاش دودھ گنگا نالے میں پھینک رہے تھے کہ پاس ہی بیٹھے بستی کے چند نوجوانوں کی نظر ان پر پڑی ‘۔ مقامی لوگوں کے مطابق انہوں نے شور مچایا جس کے بعد لوگوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کئے۔ عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین پر پولیس نے راست فائرنگ کی جس میں فیاض احمد وانی جاں بحق ہوگیا’۔فیاض احمد رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ فیاض احمد کے سر میں گولی لگی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ فیاض احمدسرکاری ملازم تھا اور دو کمسن بیٹیوں کا باپ تھا۔اس کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی بٹہ مالو ،داندر کھاہ ،مہاراج پورہ ،بمنہ ،برزلہ ،گنگہ بگ اور ملحقہ علاقوں سے ہزاروں لوگ گھروں سے باہر آئے ۔اسی اثناء میں پولیس اور مقامی لوگوں نے مظفر احمد بٹ نامی طالب علم کی لاش نالہ دودھ گنگا سے بر آمد کی اور مقامی لوگوں کے مطابق اُس کے سر پر شدید زخم کا نشان واضح تھا جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی تھی اور بعد میں اسے نالے میں پھینک دیا گیا ۔چنانچہ یہ خبر انتہائی تیزی کے ساتھ پھیل گئی اور پائین شہر و سول لائنز علاقوں میں صبح سویرے کھلنے والی اِکا دُکا دکانیں آناً فاناً بند ہو گئیں اور مساجد کے لائوڈ اسپیکروں کے ذریعے لوگوں کو گھروں سے باہر آنے کیلئے کہا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں تشدد کی خوفناک لہر بھڑک اٹھی اور شہر کے طول و ارض میں نوجوان سڑکوں پر نکل گئے اور پولیس و فورسز پر پتھرائو شروع کیا ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فورسز اہلکاروں نے احتجاجی بستیوں پر دھاوا بول دیا اور مکانوں کے شیشے توڑ دیے اور لوگوں کو زد و کوب کیا۔ٹینگ پورہ کے پڑوس میں داندر کھاہ بٹہ مالو نامی علاقے کے پاس خواتین مظاہرین پر بھی پولیس نے فائرنگ کی جس میں پچیس سالہ دوشیزہ ‘فینسی’ جاں بحق ہو گئی۔ علیٰحدگی پسندوں کی طرف سے مظاہروں کی کال کے پیش نظر شہر میں پہلے ہی تناؤ تھا اور حکومت نے تمام تعلیمی اداروں میں چھٹی کا اعلان کیا تھاجبکہ پبلک سروس کمیشن اور یونیورسٹی امتحانات ملتوی کئے گئے ہیں۔ ہلاکتوں کا انکشاف ہوتے ہی شہر کو فوجی چھاونی میں تبدیل کیا گیااور پورے شہر میں کرفیو نافذ کردیاگیا۔اس واقعہ میں مشتاق احمد ولد فاروق احمد نامی ایک اور مقامی نوجوان بھی گولی لگنے سے زخمی ہوااور اسے برزلہ اسپتال میں داخل کر دیا گیا ۔ایک بھارتی ٹی وی چینل کے لیے کام کررہے کیمرہ مین نے دعویٰ کیا کہ اس نے پولیس اہلکار کو فیاض پر راست فائرنگ کی عکس بندی کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ٹیپ کا مشاہدہ کریں گے۔انسپکٹر جنرل آف پولیس کشمیر رینج فاروق احمد نے بتایاکہ ‘ ہم اس معاملہ کی تفتیش کررہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے کہ مظفر کی موت پانی میں ڈوب جانے سے ہوئی ہے یا کسی اور وجہ سے۔ ہم فائرنگ کے واقعہ کی بھی تحقیقات کررہے ہیں’۔قابل ذکر ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے گذشتہ روز ہی کہا تھا کہ نہتے نوجوانوں کی ہلاکت کو’برداشت’ نہیں کرینگے۔واضح رہے پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ذریعہ فائرنگ اور آنسو گیس کے استعمال سے پچھلے ایک ماہ کے دوران تازہ ہلاکتوں سمیت 16 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ گنگہ بگ سے مظفر احمد بٹ اور فیاض احمد وانی کی لاشوں کو ہزاروں لوگوں نے کندھوں پر اٹھا کر جلوس نکالا اور اس دوران پولیس اور سی آر پی ایف نے فردوس آباد کے نزدیک جلوس پر زبردست ٹیر گیس شیلنگ کی اور ہوا میں گولیوں کے سینکڑوں رائونڈ چلائے جس کے باعث وہاں افرا تفری پھیل گئی اور لوگ لاشوں کو سڑک پر چھوڑ کر تتر بتر ہو گئے جس کے بعد پولیس نے دونوں لاشوں کو اپنی تحویل میں لیکر پولیس کنٹرول روم پہنچایا اور قریب ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد لاشیں لواحقین کے سپرد کیں ۔اس موقعہ پر ہزاروں لوگوں نے لاشوں کو ساتھ لیکر دوبارہ جلوس نکالا اور گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں مائسمہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے لیکن وہاں پہنچتے ہی پہلے سے موجود پولیس و فورسز کے سینکڑوں اہلکار مظاہرین پر اس وقت ٹوٹ پڑے جب مقامی مسجد سے دونوں نوجوانوں کی نماز جنازہ ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ۔فورسز اور پولیس نے یہاں بھی مظاہرین پر لاٹھیاں برسائیں ،ٹیر گیس کے گولے داغے اور زبردست ہوائی فائرنگ کر کے اتھل پتھل مچا دی تاہم مظاہرین لاشوں کو اپنے ساتھ لے گئے اورجلوس کی صورت میں گنگہ بگ پہنچ گئے ۔ان موقعوں پر پولیس کارروائی کے نتیجے میں 50سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں کئی خواتین بھی شامل تھیں ۔ مگرمل باغ کے نزدیک فورسز نے جلوس پر ٹیر گیس شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 20افراد مضروب ہوئے ۔ اس کے با وجود لاش کو کندھوں پر اٹھائے مظاہرین سینکڑوں کی تعداد میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصر کے دفتر واقع سونہ وار کی طرف مارچ کرنے لگے ۔یہ جلوس جب مولانا آزادروڑ پر براڈ وے ہوٹل کے نزدیک پہنچ گیا تو سی آر پی ایف اور پولیس کے دستوں نے جلوس پر ایک بار پھر ہوائی فائرنگ اور ٹیر گیس شیلنگ کی جس کے نتیجے میں مظاہرین تتر بتر ہوگئے اور لاش کو لیکر واپس بٹہ مالو چلے گئے ۔ اس دوران سی آر پی ایف نے مائسمہ علاقہ میں زبردست جھڑپوں پر قابو پانے کیلئے مظاہرین پر راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 17سالہ ابرار احمد ولد غلام احمد اور اویس احمدمنڈو ولد عبدالرشید عرف منڈیلا ساکنان بٹہ مالو گولیاں لگنے سے شدید طور پر زخمی ہوئے ۔دونوں کو فوری طور پر صدر اسپتال لے جایا گیا جہاں ابرار احمد نے کچھ دیر بعد ہی زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ دیا جبکہ اویس احمد کو تشویشناک حالت میں صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ منتقل کیا گیا ۔اس کی چھاتی میں گولی لگی ہے اور اس کی حالت انتہائی نازک بتائی جا رہی ہے۔مائسمہ میں ڈسٹرکٹ پولیس لائنز سرینگر سے وابستہ ہیڈ کانسٹیبل محمد رفیق بیلٹ نمبر1065کو مظاہرین نے دبوچ کر شدید زد و کوب کر کے نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا جس کے بعد اسے صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ لے جایا گیا جہاں اس کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔ اسپتال ذرائع نے بتایا کہ پرویز احمد بٹ ولد غلام محی الدین ساکن نیو کالونی بٹہ مالو نامی نوجوان کو بھی اسپتال میں داخل کیا گیا اور اسے بھی گولی لگی ہے ۔ٹہ مالو اور اس کے گرد و نواح میں دوشیزہ سمیت چارنوجوانوں کی پے در پے ہلاکتوں سے علاقہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور ہر طرف مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم آرائیاں شروع ہوئیں ۔

3 Responses to فورسز کے ہاتھوں قتل و غارت جاری

  1. عثمان نے کہا:

    السلام علیکم!
    آپ سے ایک درخواست ہے کہ اگر مناسب سمجھیں تو اپنی تحریر کا فونٹ بڑا اور بہتر کر دیجئے۔ پڑھنے میں‌ کافی دقت ہو رہی ہے۔
    شکریہ

  2. imtiyazkhan نے کہا:

    وعلیکم اسلام دوست
    انشاءاللہ مستقبل قریب میں آپکے مشورے پر عمل ہوگا۔ اپنی آراء سے نوازنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔

تبصرہ کریں