ہزاروں لوگ امدادی کیمپوں میں منتقل

سیلاب زدگان کیلئے شہر کے محفوظ علاقوں میں بڑے پیمانے پر ریلیف آپریشن جاری ہے۔مقامی لوگوں کی طرف سے سیلاب زدہ علاقوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے متاثرین کیلئے حیدرپورہ ،باغات،صنعت نگر، اشرف العلوم حیدرپورہ اورغوری پورہ صنعت نگر سمیت کئی مقامات پر ریلیف کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں متاثرین کیلئے کھانے پینے کے علاوہ رہائش کا بھی معقول انتظام کیا جارہا ہے۔ان امدادی کیمپوں میں طبی امداد ، بچوں کیلئے دودھ اورجوس فراہم کیا جارہا ہے۔وادی میں غذائی اجناس کی قلت کی وجہ سے ضرورت مند لوگوں میں چاول،دالیں اور دیگر امدادی اشیاء تقسیم کی جا رہی ہیں۔ان امدادی کیمپوں سے روزانہ پکا پکایا کھانا تیار کر کے امدادی رضا کار مختلف جگہوں پر پناہ لئے متاثرین میں تقسیم کر رہے ہیں۔ اس امدادی آپریشن میں سینکڑوں امدادی رضا کار حصہ لے رہے ہیں جو شب و روز متاثرین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ان رضاکاروں کا کہنا ہے کہ متاثرین کے معمولات زندگی بحال ہونے تک وہ اپنی امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔امدادی کیمپوں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس پیمانے پر ہونیوالی تباہی کے دوران امداد اور بچاؤ کا کام کسی ایک تنظیم یا امدادی ادارے کے بس میں نہیں ہے بلکہ مصیبت کی اس گھڑی میں پوری قوم کو اخوت ،مساوات اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لئے کمر بستہ ہوناہوگا۔ان امدادی کیمپوں میں ایک خاص بات یہ دیکھنے کو ملی کہ اس کام میں کہیں بھی سرکارسے کوئی امداد نہ ملی ہے اور نہ اس کی ضرورت محسوس کی گئی ہے تاہم وادی کے مختلف علاقوں سے جوبھی امدادی سامان اِن کیمپوں تک پہنچا ہے اس کی منتظمین اور متاثرین سراہنا کررہے ہیں ۔چند ایک امدادی کیمپوں نے اپنے کام اورطریقہ کار سے یوں روشناس کیا۔امدادی کیمپ حیدرپورہ
سرینگر کی بستیاں جوں ہی زیر آب آگئیں ۔ حیدرپورہ کی انتظامیہ کمیٹی نے امدای کیمپ لگایا اورنوجوان رضاکار راحت رسانی کے کام میں جٹ گئے۔انتظامیہ کمیٹی کے ایک ذمہ دارنذیر احمد ڈارنے بتایا’’رواں ماہ کی 7تاریخ کو سیلاب زدہ علاقوں سے جوں ہی متاثرین نے نقل مکانی شروع کردی تو ہم نے ان کیلئے جامع مسجد اور کئی رہائشی مکانات کو بلا تفریق مذہب و مسلک وقف کردیا ۔کیمپ میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی ‘‘۔نذیر احمدکے مطابق ایمرجنسی حالات کی وجہ سے وہ متاثرین کی رجسٹریشن نہیں کرسکے تاہم کیمپ میں موجود 5سے6ہزار افراد کیلئے ایک لنگر کی شروعات کی گئی۔نذیر احمدنے کہا ’’لنگر میں روزانہ 14سے15کوئنٹل چاول پکاکر متاثرین میں تقسیم کیا جاتا رہااورچاول کے ساتھ دال اور سبزی روزانہ بنتی تھی‘‘۔انتظامیہ کمیٹی کے مطابق متاثرین کیلئے دن میں دو بارچائے روٹی کا انتظام بھی احسن طریقے سے کیا جاتا رہابلکہ تین نانوائیوں کو فقط کیمپ کیلئے روٹیاں بنانے کے کام پر لگایا گیا تھا۔نذیر احمد نے مزید کہا’’ رہائش اور کھانے پینے کے علاوہ متاثرین کیلئے کمبل اور گرم ملبوسات دستیاب رکھی گئیں جبکہ بچوں کے لئے ڈائپر اور جوس بڑی تعداد میں تقسیم کیا گیا ۔انتظامیہ کمیٹی کے مطابق ان کے پاس ریاستی انتظامیہ کی امداد تو دور کی بات کوئی حال چال پوچھنے بھی نہیں آیا،جس کی ہم نے ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔کمیٹی نے تاہم اس بات کا اعتراف کیا کہ بزرگ آزادی پسند لیڈر سید علی گیلانی،شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان نے ان کی ڈھارس بندھائی۔کمیٹی کے ایک اور ذمہ دار غلام حسن کے مطابق وادی کے مختلف اضلاع سے کئی امدادی ٹیموں نے انہیں چاول،دالیں ،سبزیاں اوردیگر ذروری اشیاء کی صورت میں کافی مدد کی جس کیلئے وہ بے حد مشکور ہیں۔
صنعت نگر
صنعت نگرکے اقبال کنونشن سینٹر میں8ستمبر کو امدادی کیمپ کی شروعات ایک مقامی مسجد کے امام صاحب نے کی ۔ کیمپ میں جواہر نگر،راجباغ،مہجور نگر،نوگام،بمنہ ،نٹی پورہ،چھانہ پورہ ،لسجن اور دوسرے سیلاب زدہ علاقوں کے تقریباًتین ہزار لوگوں کیلئے قیام وطعام کا بندوبست کیا گیا جن میں زیادہ تعدادخواتین کی تھی ۔کیمپ انچارج مولوی عباس نے بتایا’’سیلابی صورتحال دیکھ کر چند ایک لوگوں نے اپنے اپنے گھروں سے دال، چاول اور سبزیاں لاکر متاثرین کیلئے تھوڑا بہت انتظام کیا تاہم متاثرین کی کافی تعداد دیکھ کر سینکڑوں نوجوان اوربزرگ نے تعاون کیلئے ہاتھ بڑھایا‘‘۔مولوی صاحب نے مزید کہا’’صنعت نگر،روالپورہ اورغوری پورہ سے نہ صرف مرد بلکہ خواتین نے بھی بھرپور اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ کسی نے کمبل لایا تو کوئی گرم ملبوسات لیکر پہنچا،کسی نے سبزی لائی تو کسی نے نقد امداد کی الغرض ہر کسی نے بہت اچھا کام کیا‘‘۔مولوی صاحب کے مطابق کیمپ میں متاثرین کی پہلے رجسٹریشن شروع ہوگئی کیونکہ مواصلاتی نظام ٹھپ تھا اورکوشش یہ کی گئی کہ جن افراد کو رجسٹر کیا جائے ان کی ایک لسٹ باہر چسپاں ہو تاکہ ان کے عزیز و اقارب کو انہیں ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہ ہو۔مولوی صاحب نے مزید بتایا’’ کیمپ میں موجود متاثرین کو اپنے گھر جیسی سہولت بہم رکھنے کی کوشش کی گئی۔وہ چاہے نمکین چائے ہو یا لپٹن،کھانا پینا ہو یا گرم ملبوسات،علاج و معالجہ ہو یا بچوں کیلئے دودھ کیمپ کی استطاعت کے مطابق ان سب چیزوں کو فراہم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑدی گئی۔مولوی عباس نے کہا ’’ہم نے کیمپ شروع کا سارا خرچہ خود برداشت کیا ،کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے کوئی مدد نہیں لی‘‘۔انہوں نے طنزاً کہا ’’سرکار تو ویسے تھی ہی کہاں‘‘۔مولوی عباس کے مطابق مقامی لوگوں نے چاول،سبزیوں اور گرم ملبوسات کے علاوہ 80ہزار روپئے نقدامداد فراہم کی۔ مولوی عباس نے زور دیکر کہا کہ دورز دراز دیہات اور قصبوں سے لوگوں نے آکر نہ صرف ہماری ڈھارس بندھائی بلکہ بہت زیادہ مدد کی اور یہ ثابت کرکے دکھایا کہ کشمیری قوم ایک ہے ۔
غوری پورہ
غوری پورہ صنعت نگر کے کمیونٹی حال میں کیمپ کی شروعات 8ستمبر کو ہوئی ۔بستی کے چند نوجوانوں اور ذی حس لوگوں نے چاول ،سبزیاں اوربالن جمع کرکے متاثرین کیلئے کھانے پینے کا انتظام کیا ۔انتظامیہ کمیٹی کے ایک اہم رکن حاجی ولی محمد شیخ نے بتایا کہ انہوں نے کمیونٹی حال کی پہلی منزل میں مردوں اور دوسری منزل میں خواتین کیلئے رہائش کا انتظام کیا۔اس دوران مسجد میں نماز مغرب پر اعلان کیا گیا کہ اپنے اپنے گھر سے ایک ایک کمبل متاثرین کیلئے ساتھ لائیں جس پر سب لوگوں نے لبیک کہا اور سیلاب زدگان کے آرام کیلئے انتظام ہوگیا۔ولی محمد نے بتایاکہ سات ستمبر کو تاہم زیادہ لوگ غیر ریاستی تھے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ولی محمد کے مطابق 8ستمبر کو سیلاب زدگان زیادہ تعداد میں آنے لگے جن کی زیادہ تعداد ٹینگہ پورہ،بمنہ اوربٹہ مالوعلاقوں سے تھی۔
باغات(خان محلہ)
باغات خان محلہ کی مسجد چہار یارمیں بھی ایسا ہی ایک امدادی کیمپ رواں ماہ کی 7تاریخ کو شروع کیا گیا تھا۔کیمپ میں کھانے پینے کی تمام اشیاء سے لیکر دوائیوں کا مکمل انتظام کیا گیا تھا۔محلہ کمیٹی نے نہ صرف سیلاب زدگان کو کھلانے پلانے کی حتی الامکان کوشش کی بلکہ محلے کی صفائی کا بھی بھرپور خیال رکھا۔انتظامیہ کمیٹی کے مطابق انہوں نے مسلمانوں ،سکھ اور ہندو برادری کے ساتھ یکساں سلوک کیا اورسبھی متاثرین کیلئے رہائش اور کھانے پینے کا انتظام مسجد میں ہی تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیلاب سے جو علاقے محفوظ تھے وہاں کی مسجدوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کیا گیا تھا اور نوجوان رضاکارانہ طور متاثرین کو کھلاتے پلاتے رہے۔کئی علاقوں میں متاثرین کیلئے ٹینٹ لگائے گئے تھے اور جہاں سرکاری عمارتیں تھیں ان کو بھی لوگوں نے از خود متاثرین کیلئے استعمال میں لایا۔اشرف العلوم حیدرپورہ بھی اس مصیبت کی گھڑی میں سیلاب زدگان کی امداد کیلئے پیش پیش رہا۔اشرف العلوم نے نہ صرف کھانے پینے کا بہترین انتظام کیا تھا بلکہ رہائش کا بھی معقول انتظام کیا تھا۔اشرف العلوم انتظامیہ کے مطابق انہوں نے اپنے تمام کام معطل کئے تھے اور سیلاب زدگان کو ہر طرح کا تعاون فراہم کرنے کو اولین ترجیح دی۔
مساجد میں ریلیف کیمپ
سرینگر میں جونہی سیلاب بستیوں میں داخل ہوا تووہاں سے مکینوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی شروع ہوئی۔بستیوں سے فرار ہونے والے لوگ بائی پاس ،چھانہ پورہ، رام باغ کے علاوہ پائین شہر کے اُن علاقوں میں مقیم ہوگئے جہاں سیلاب کا پانی داخل نہیں ہوا تھا۔اس کے بعد ہر ایک مسجد کمیٹی کے ذمہ داروں نے رضاکارانہ طور پر مساجد میں لوگوں کو بٹھایا اور مساجد کو ریلیف کیمپوں میں تبدیل کیا۔ہر ایک مسجد میں لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام کیا گیا جو اب تک کئی مساجد میں جاری ہے۔

تبصرہ کریں