شجرکاری مہم اور ہماری ذمہ داریاں

POPLARموسم سرما رخصت ہوتے ہی ہماری ریاست میں شجر کاری شروع ہوتی ہے اور لاکھوں نئے پیڑ پودے لگائے جاتے ہیں۔ یہ روایت زمانہ قدیم سے ہی رائج ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری ریاست ان علاقوں میں شمار ہوتی تھی جہاں پیڑ پودوں اور درختوں کی فراوانی ہوا کرتی تھی۔ کون سا درخت تھا جس کے اگنے کے امکانات یہاں تھے اور وہ لاکھوں کی تعداد میں یہاں موجود نہ تھے۔ اور تو اور، پہاڑی علاقوں کے علاوہ عام لوگ جڑی بوٹیاں بھی اپنے ارد گرد ہی اگاتے تھے۔ مال مویشیوں کیلئے چارہ مقامی طور پر ہی پیدا کیا جاتا تھا۔ اس وجہ سے ان کی تعداد بھی اس قدر ہوتی تھی کہ گوشت پوست کی مقامی ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ یہ چیزیں یہاں سے بر آمد بھی ہوا کرتی تھیں۔اس سے ریاستی معیشت کو اچھا خاصا فروغ ملتا تھااور یہاں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو روزگار کے علاوہ خود کفالت بھی نصیب ہوتی تھی۔ یہ انواع و اقسام کے پیڑ پودوں کی ہی بدولت تھا کہ ریاست ریشم پیدا کرنے والے دنیا کے کلیدی اور اہم علاقوں میں شمار ہوتی تھی۔
مگر یہ سب آج قصہ پارینہ بن چکا ہے کیونکہ ریاست میں چند دہائیوں سے جس زور و شور سے درختوں کا صفایا ہورہا ہے، اس سے یہاں کا ماحولیاتی اور معاشی منظرنامہ ہی تبدیل ہوکر رہ چکا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ لوگ نئے پیڑ پودے اگانے میں انتہائی بخل اور کنجوسی سے کام لے رہے ہیں۔کاٹے گئے درختوں کی جگہ نئے پودے لگانے کے بجائے اکثر تعمیرات کھڑی کی جاتی ہیں جس سے یہاں مستقبل میں کسی بھی قسم کی شجر کاری کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہوجاتے ہیں۔ یہاں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں لوگ شجر کاری کے اصولوں کی پاسداری کرکے نئے اور عمدہ یا اعلیٰ اقسام کے پیڑ پودے لگاتے ہیں وہاں لوگوں کی اقتصادی حالت ہی نہیں بلکہ ان کے ارد گرد کا ماحول بھی امید افزا اور خوشگوار ہوتا ہے۔
یہ درختوں کی فراوانی اور کثرت کا ہی نتیجہ تھا کہ ریاست میں پانی بھی وافر مقدار میں پایا جاتا تھا۔ سرسبز اور لہلہاتے کھیت، گنگناتی ندیاں اور فائدہ بخش میوہ باغات پانی کی دستیابی سے ہی ممکن ہوتے تھے۔ ریاست کا چپہ چپہ سر سبز و شاداب ہوا کرتا تھا اور ہر کونہ جنت کے مثل تھا۔ ریاست کے لداخ خطے کو چھوڑ کر ہر علاقے میں گھنے جنگلات کے علاوہ بستیوں میں بھی کافی پیڑ پودے دیکھے جاتے تھے جن سے لکڑی اور بالن کے علاوہ دیگر کئی ضروریات مقامی سطح پر ہی پوری ہوتی تھیں۔ مگر اب صورت حال مختلف ہے۔ جہاں بھی شجر کاری کیلئے زمینیں تھیں ان پر تعمیرات کھڑی کی جا چکی ہیں جس سے زمین سکڑتی گئی اور شادابی رخصت ہوئی۔ درختوں کیلئے مشہور ہماری ریاست نہ صرف لکڑی کیلئے دوسرے علاقوں کی طرف رجوع کرنے کیلئے مجبور ہوگئی بلکہ اب تو مال مویشیوں کیلئے چارہ اور چوکر بھی تقریباً باہر سے ہی درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ نے ہمیں جس جنت سے نوازا تھا، ہماری کج روی کی بدولت یہ اس کے برعکس ثابت ہو رہا ہے۔
حالانکہ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ ہماری اس سرزمین میں بہت کچھ ہے لیکن اس کی آواز کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں گے اور پیڑ پودوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی انواع و اقسام پر بھی توجہ دیں تو یہ دھرتی سونا اگلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے ایک اور غیر ضروری اور خطرناک روش نے جنم لیا ہوا ہے۔ اب زرعی مقصد کیلئے استعمال ہونے والی زمین پر میوہ باغات بنائے جاتے ہیں جو مستقبل بعید میں ایک بحرانی صورت حال کا باعث ہوسکتا ہے۔ جو زمین جس چیز کیلئے موزون ہو اس پر وہی فصل اگانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کا بہت بڑا رول اور ذمہ داری ہے کہ قانونی چارہ جوئی کرکے ریاست میں زمین کے صحیح استعمال کو یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔
شجر کاری کے موجودہ سیزن میں اس بات کو ہم یقینی بنانے کا عہد کریں کہ اس سرزمین کو دلہن کی طرح سجانے اور اس سے اپنی ضروریات حاصل کرنے میں ہم کسی کوتاہی سے کام نہ لیں گے۔ اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہوئے تو ہماری ریاست کی بہت سی مشکلات کا ازالہ ہوگا جو فی الوقت مشکل اور ناممکن لگتا ہے۔ ہماری لکڑی کی برآمدات پر آنے والے اخراجات کم ہوکر دوسرے تعمیراتی کاموں میں صرف ہوسکتے ہیں۔اسی طرح اگر ہم شہتوت کی طرف پھر رخ کریں گے تو آبادی کی ایک کثیر تعداد بے روزگاری کے مہیب چنگل سے باہر نکل آئے گی جو ہماری ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اسی طرح لکڑی اور بالن کیلئے ہمیں جنگلات کا صفایا کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی جس سے ہمارے جنگلات مزید تباہی سے بچ جائیں گے۔ اس سے یہاں پانی کی دستیابی میں اضافہ ہوگا اور کئی دہائیوں سے بنجر پڑی زمینیں پھر سے سرسبز و شاداب ہو جائیں گی۔ ہماری بہاریں رومان پرور اور سرم پریشانیوں سے پرے ہونگے۔
موجودہ دور میں ویسے بھی پیڑ پودوں کی ایسی اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں جو کچھ ہی برسوں میں فصل دینے کی طاقت رکھتی ہیں۔ ہمیں جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاکر انھیں اپنانا ہوگا تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ مل سکے۔ وقت تیزی سے بڑھ ہا ہے اور وہی قوم ترقی کی امید رکھ سکتی ہے جو اس کی قدر کرسکے۔ ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرکے اس بار شجر کاری کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی سعی کرنا ہوگی تاکہ ہمارا مستقبل تابناک اور روشن ہو۔

2 Responses to شجرکاری مہم اور ہماری ذمہ داریاں

  1. Iftikhar Ajmal Bhopal نے کہا:

    شجر کاری کارِ ثواب ہے . اور سنایئے آپ کا کیا حال ہے ۔ میرا دھیان ہر وقت آپ لوگوں کی طرف رہتا ہے ۔ اللہ آپ سب کو اپنے حفظ و امان مین رکھے
    http://www.theajmals.com

    • imtiyazkhan نے کہا:

      السلام علیکم۔محترم افتخار صاحب یاد کرنے کیلئے شکریہ۔اللہ کے فضل و کرم سے تادمِ تحریر ٹھیک ہیں۔اپنی دعاﺅں میں یاد رکھیں۔اللہ حافظ

تبصرہ کریں